رام مندر اور سلیمان مندر

رام مندر اور سلیمان مندر
یاسر ندیم الواجدی

ایک بار پھر رام مندر کا ایشو ملک بھر میں چھایا ہوا ہے، مقامی لوگوں کے مطابق فیض آباد اور ایودھیا میں حالات کچھ اسی طرح کے ہیں جیسا کہ 6 دسمبر 1992 کے موقع پر تھے۔ یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ لاکھوں کارسیوکوں کا ہجوم دراصل حکومت کی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے جمع ہوا ہے۔ کہنے کو ہی سہی لیکن 2014 کا الیکشن ترقی کے نام پر لڑا گیا تھا البتہ 2019 کا الیکشن صرف اور صرف ہندو بنام مسلم لڑا جانا ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ لاکھوں لوگوں کا یہ مجمع مجوزہ رام مندر کی تعمیر کا آغاز کر سکتا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کو ایک ایسی قوم کا بھی سامنا ہے جو معبد سلیمانی بنانے کا خواب لیے کئی صدیوں سے منتظر ہے۔

یہود وہنود میں صرف لفظی مشابہت نہیں ہے بلکہ تاریخی، ثقافتی، لسانی اور مذہبی مشابہت بھی ہے۔ اٹھارویں صدی سے لے کر اب تک اس مشابہت پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں، کچھ کتابیں ہندو رہنماؤں نے لکھی ہیں تو کچھ یہودی مؤرخین نے۔ ہندوؤں میں راجنیش اوشو نے جب کہ یہودیوں میں اسٹیون روسن نے اس موضوع پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی ہے۔ مؤخر الذکر امریکا اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی کا تیئس سال تک چیئرمین رہا ہے۔ یہ ایک صہیونی تنظیم ہے جو امریکہ میں اسرائیلی مفادات کی سب سے بڑی محافظ ہے۔ ان دونوں نے یہود اور برہمنوں کے درمیان مشابہت کا ذکر کرتے ہوئے یہ نکتہ لکھا ہے برہمنوں کے یہاں پنڈتو کی برادری ہوتی ہے جبکہ یہود میں کاہنوں کی حکومت، دونوں کا ہی ماننا ہے کہ وہ خدا کی چنندہ قوم ہیں، دونوں ہی اقوام میں علم نجوم کی بڑی اہمیت ہے، دونوں کے یہاں قوانین معاشرتی روایات پر مبنی ہیں، دونوں قومیت اور نیشنلزم میں یقین رکھتے ہیں، دونوں مذاہب خاندانی وعلاقائی ہیں، نیز یہود کی یہاں نوح کو منوح بھی کہا جاتا ہے جبکہ ہندوؤں میں اسی لفظ کو منو کہا جاتا ہے۔ یہودی جس طریقے سے اپنے آپ کو دنیا کی دیگر اقوام سے برتر اور بہتر سمجھتے ہیں بالکل اسی طریقے سے برہمن بھی اپنے آپ کو دیگر برادریوں اور طبقات سے بہتر اور برتر سمجھتے ہیں۔ چانکیہ کی لکھی ہوئی ارتھ شاستر اور یہودیوں کے پروٹوکولز آف زائنزم کا اگر موازنہ کریں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ دونوں ہی اقوام کو سازشوں، ناانصافیوں اور اقتدار کے حصول کی لیے ہر ممکن طریقہ کار اختیار کرنے میں بھی زبردست مشابہت حاصل ہے۔ آخری ہتھیار کے طور پر یہودی اگر قبالا جادو کے ذریعے اپنے مخالف پر قابو پاتے ہیں تو ہندوؤں کے یہاں کالاجادو ایک مؤثر ہتھیار مانا جاتا ہے۔

قرآن کریم نے چودہ سوسال پہلے اس حقیقت کو واشگاف کردیا تھا کہ یہود اور مشرکین کبھی بھی مسلمانوں کے حق میں نرم گوشہ نہیں رکھ سکتے۔ اب اس کو اتفاق ہی کہیے کہ ایک طرف فلسطین کی مقدس زمین پر معبد سلیمانی قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے (اور ایسا لگتا ہے کہ خدانخواستہ چند سالوں کے اندر اندر کوئی بری خبر آنے والی ہے) وہیں دوسری طرف بابری مسجد کی مقدس زمین پر رام مندر تعمیر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جو خطرہ فلسطین کی مبارک سرزمین کے تعلق سے ہے وہی خطرہ بابری مسجد کی مقدس سرزمین کے تعلق سے بھی ہے۔

صہیونی یوں تو کبھی بھی مسجد اقصی شہید کرکے اپنا معبد تعمیر کرسکتے ہیں، لیکن اس سے پہلے انھیں کچھ مذہبی رسومات بھی پوری کرنی ہیں۔ تلمود کے مطابق انھیں ایک لال بچھڑے کو جس پر کوئی نشان نہ ہو اور جو اسرائیلی علاقے میں ہی پیدا ہوا ہو ذبح کرنا ہے، تبھی معبد سلیمانی کی تعمیر مبارک ہوپائے گی۔ صدیوں سے اس لال بچھڑے کا بھی انتظار تھا جو اسرائیلی میڈیا کے مطابق اگست 2018 میں پورا ہوا۔ یوٹیوب پر یہود اور ایوانجلیکل عیسائیوں کی کئی سو ویڈیوز ہیں جو اس واقعے پر خوشی کا اظہار کررہے ہیں۔ اس بچھڑے کو دو سال کے اندر اندر ذبح کیا جانا ہے۔ دوسری طرف ہندو ماہرین نجوم بھی جولائی میں ہونے والے چاند گرہن کی روشنی میں رام مندر کو لیکر پیش گوئی کرچکے ہیں۔ ایک مسلمان کے نزدیک ان پیشن گوئیوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اصل طاقت اللہ کی ہے، لیکن ان واقعات سے یہ ضرور اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے تعلق سے منفی رویہ رکھنے والی دو قومیں کس یکجہتی کے ساتھ کام کررہی ہیں۔

0 Shares:
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *