اسلام کا نظریہ جنگ فرقہ غامدیہ بنام اہل سنت والجماعت


اسلام کا نظریہ جنگ
فرقہ غامدیہ بنام اہل سنت والجماعت
یاسر ندیم الواجدی

عنوان میں کیے گئے تقابل سے ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ چیں بہ جبیں ہوں، اس لیے یہ وضاحت ضروری ہے کہ غامدی صاحب خود اہل سنت والجماعت میں سے ہونے کے مدعی نہیں ہیں۔ ہوتے بھی کیسے؟ “لاریب، حدیث ان کے یہاں دین کی بنیاد ہی نہیں ہے”. یہ بھی واضح رہے کہ کسی بھی جماعت کے فرقہ بننے کی بنیاد یہ ہے کہ اس جماعت کے اپنے اصول اور فروع ہوں۔ غامدی صاحب نے اپنی جماعت کے اصول اور فروع اپنی کتاب المیزان وغیرہ میں تفصیل سے بیان کر دیے ہیں۔ یہ اصول وفروع اہلسنت والجماعت کے ذکر کردہ اصول و فروع سے مختلف ہیں۔

غامدی صاحب اسلام کی لبرل اور مغربی تشریح کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ اسلامی ریاست، جہاد اور جنگ جیسے موضوعات مغربی مفکرین کے لیے ہمیشہ سے دلچسپی کا سامان رہے ہیں۔ لہذا یہ کیسے ممکن تھا کہ غامدی صاحب ان موضوعات کو اپنا موضوع سخن نہ بناتے؟

وہ اپنی کتاب میزان میں لکھتے ہیں: “لہذا یہ بالکل قطعی ہے کہ منکرین حق کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کرکے انہیں محکوم اور زیردست بنا کر رکھنے کا حق اس کے بعد ہمیشہ کیلئے ختم ہوگیا ہے۔ قیامت تک کوئی شخص ابن دنیا کی کسی قوم پر اس مقصد سے حملہ کر سکتا ہے اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے قتال کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے اور وہ ظلم وعدوان کے خلاف جنگ ہے۔اللہ کی راہ میں قتال اب یہی ہے اس کے سوا کسی مقصد کے لیے بھی دین کے نام پر جنگ نہیں کی جاسکتی”۔

غامدی صاحب کے نزدیک عہد نبوی میں جو جنگیں ہوئی ہیں وہ دو مقاصد کے پیش نظر ہوئی ہیں: انکار حق اور ظلم وعدوان۔ اس اقتباس میں غامدی صاحب نے جزیہ کے حکم کو انکار حق کے نتیجے میں ہونے والی جنگوں سے متعلق کیا ہے۔ پھر خود ہی یہ فیصلہ بھی کر دیا ہے کہ اس مقصد سے اب کبھی جنگ نہیں ہوسکے گی لہذا جزیہ بھی کسی پر عائد نہیں کیا جا سکے گا۔

حالانکہ قرآن نے سورہ حج میں مسلمانوں کو پہلی مرتبہ جب قتال کا حکم دیا تو اس کی علت خود ہی ظلم اور عدوان ذکر کی۔ عہد رسالت میں جتنی جنگیں ہوئی ہے وہ اسی ظلم و عدوان کا نتیجہ ہیں، جو دشمنوں کی طرف سے یا تو ممکن تھا، یا فوری سر پر آ کھڑا تھا۔ موصوف کو کہنا یہ چاہیے تھا کہ کفار کی طرف سے ہونے والا ظلم اور ان کی سرکشی کی بنیاد انکار حق بنا، لیکن موصوف نے جزیہ کے حکم کو معطل کرنے کے لیے جنگوں کی دو قسمیں کر دی ہیں، جیسا کہ مذکورہ بالا اقتباس سے ظاہر ہے۔

اکابر دیوبند اور ان سے پہلے جمہور کا جنگ کے تعلق سے نظریہ بھی سمجھنا ضروری ہے۔ حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی کی اشاعت اسلام، حکیم الامت حضرت تھانوی کی اس پر عالمانہ اور فقیہانہ تقریظ، حضرت مفتی شفیع عثمانی کی سیرت خاتم الانبیاء اور حضرت مفتی رفیع عثمانی کی شرح مسلم کے مباحث سامنے رکھ کر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ:

1- جنگ اسلامی ریاست کی ماتحتی میں ہی ہوگی۔
2- ایسے دشمنوں کے خلاف جن سے فوری خطرہ ہو دفاعی جنگ ہوگی جبکہ ایسے دشمنوں کے خلاف جن سے ممکنہ خطرہ ہو اقدامی جنگ جائز ہے۔
3- ایسے دشمن جن سے نہ فوری خطرہ ہو نہ امکانی خطرہ ہو کوئی جنگ نہیں ہوگی۔
4- خطرے کی صورت میں بھی جنگ کو ٹالے جانے کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں:
الف: بغیر کسی مالی عوض کے آپس میں صلح کر لی جائے۔
ب: مالی عوض کے مقابلے میں صلح کر لی جائے۔ یہ عوض کفار مسلمانوں کو دیں، یا وقتی طور پر مسلمان کفار کو دیں۔ امام سرخسی نے دونوں صورتیں لکھی ہیں۔
ج: دشمن کے کچھ افراد امن کی طلب میں دارالاسلام آجائیں۔
د: دشمن ریاست، اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کر لے۔

اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ اسلامی ریاست سرحدوں کی توسیع کے لیے جنگ نہیں کرے گی، بلکہ ظلم و عدوان سے نمٹنے کے لیے جنگ کرسکتی ہے، وہ بھی اس وقت جب کہ مذکورہ بالا چاروں شقوں کو اختیار نہ کیا جا سکتا ہو۔

جزیہ کے تعلق سے مفتی شفیع عثمانی فرماتے ہیں کہ یہ ایک قسم کا ٹیکس ہے، جس کا مقصد جزیہ دینے والوں کے جان و مال کی حفاظت کرنا ہے۔ گویا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اب وہ بھی مسلم فوج کے شانہ بشانہ لڑیں، لیکن اس کے باوجود ان کو یہ رعایت دی گئی کہ وہ اپنے نفس کے بجائے کچھ مال کی قربانی دے دیں۔ امام شافعی نے وه‍م صاغرون کی تشریح یہ فرمائی ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کرنے والے ہوں۔ ظاہر ہے کہ قانون کی پاسداری کرنا کسی کے نزدیک بھی ذلت آمیز رویہ نہیں ہے۔

ایک غامدی الفکر شخص نے یہ اعتراض کیا کہ فقہ کی کتابوں میں یہ کہاں لکھا ہے کہ جنگ صرف خطرے کی صورت میں ہوگی؟ دراصل وہ غامدی صاحب پر وارد شدہ اس الہام کا دفاع کر رہے تھے کہ مدارس دہشت گردی کا اڈہ ہیں، کیونکہ ان کے نصاب میں جنگ کرنے اور مرتد کو قتل کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ میں نے یہ جواب دیا کہ فقہ دراصل اسلامی قانون کا نام ہے اور قانون میں کسی صورت حال کے پیش آنے کے بعد کا حکم لکھا جاتا ہے۔ جیسے قانون میں یہ تو لکھا ہوگا کہ اگر قتل ہوجائے تو اب کیا کیا جانا چاہیے، لیکن یہ نہیں لکھا ہوگا کہ اگر قتل نہ ہو تو کیا کریں۔ اسی طرح فقہ میں یہ مسائل تو ملیں گے کہ جنگ کی صورت میں مسلم افواج کیا کریں، لیکن امن کی صورت میں مسلم فوج کیا کرے یہ مسئلہ فقہ سے متعلق نہیں ہے۔ قیام امن کا تعلق اسلامی دستور سے ہے جو کہ قرآن اور سنت پر مشتمل ہے۔

غامدی صاحب نے سوچا کہ جزیہ کو چونکہ مغرب میں ایک منفی اصطلاح کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اس لیے انہوں نے اس کا یہ حل نکالا کہ عہد نبوی میں ہونے والی جنگوں کے دو اسباب ذکر کیے: انکار حق اور ظلم۔ پھر جزیہ کو انکار حق کے نتیجے میں ہونے والی جنگوں سے متعلق کیا۔ پھر آگے بڑھے اور کہا کہ انکار حق کے نتیجے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب جنگ نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس سبب سے کی جانے والی جنگ غامدی صاحب کی فیورٹ اصطلاح “اتمام حجت” کے بعد ہی ہوسکتی ہے اور رسول کے بعد حجت کسی صورت تمام نہیں ہو سکتی، لہذا جزیہ بھی کسی قوم پر نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں سے ان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ مدارس کے نصاب میں کیوں کہ “اتمام حجت” کے بغیر ہی جنگ کے مسائل پڑھائے جاتے ہیں اس لیے مدارس دہشت گردی کا مرکز ہیں۔ یہ ہے اسلام کی معذرت خواہانہ تشریح اور مدارس کے خلاف ان کے پروپیگنڈے کی اصل وجہ۔

0 Shares:
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *