المورد کی طرف سے ہمارے مضمون “جمعہ کی نماز واجب نہیں رہی” کا جواب


المورد کی طرف سے ہمارے مضمون “جمعہ کی نماز واجب نہیں رہی” کا جواب
یاسر ندیم الواجدی

چند روز پہلے ہم نے غامدی صاحب کے تعلق سے “نماز جمعہ واجب نہیں رہی” کے عنوان کے تحت ایک مضمون لکھا تھا۔ غامدی صاحب کے ادارے المورد کے رکن جناب مشفق سلطان کی طرف سے اس کا جواب لکھا گیا ہے۔ مجھے اچھا لگتا کہ جواب میں نفس موضوع پر ہی بحث کی جاتی، لیکن افسوس ہوا کہ ابتدائی چند سطریں میرے منفی تعارف میں ضائع کردی گئیں اور الزام ہم پر لگادیا گیا کہ ہم سنجیدہ علمی گفتگو کے قائل نہیں ہیں۔ الحمد للہ سرجیکل اسٹرائیک کے پلیٹ فارم سے ہم دیوبند، بریلی اور اہل حدیث مکاتب فکر کے علماء کے درمیان ایک صحت مند گفتگو بھی پیش کرچکے ہیں۔ مناظرہ ہم یقینا کرتے ہیں لیکن بالذي هي أحسن کے اصول کو سامنے رکھتے ہوے۔ مندرجہ ذیل لنک پر ہماری ایک ملحد کے ساتھ تازہ ترین گفتگو ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

ہم نے کبھی غامدی صاحب کو گمراہ، فتنہ گر وغیرہ وغیرہ القاب سے یاد نہیں کیا، اپنے مضامین میں ان کا احترام ملحوظ رکھا ہے۔ لبرلز کو ہم منافق قرار دیتے ہیں، کیوں کہ لبرلزم ایک فلسفہ ہے جس کا کلمہ لا الہ الا الانسان ہے۔ لیکن چونکہ کچھ لوگ مسلمان بن کر لبرلزم پر عمل پیرا رہتے ہیں، اس لیے ان کو منافق ہی کہا جائے گا۔ پتہ نہیں کیوں غامدی صاحب کے متبعین نے سمجھا کہ لبرلز سے مراد وہ ہیں۔

مشفق سلطان صاحب نے لکھا کہ: “نماز جمعہ واجب نہیں رہی” یہ غامدی صاحب پر جھوٹ اور بہتان ہے۔
ہماری طرف سے عرض یہ ہے کہ غامدی صاحب کی جمعہ کے تعلق سے دو ویڈیوز ہیں، ایک دو منٹ 44 سیکنڈ کی جو امریکہ کی ہے، جب کہ دوسری گیارہ منٹ بیس سکنڈ کی جو غالبا پاکستان کی ہے۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ جمعہ کی نماز فرض ہے، اب پہلی ویڈیو میں سائل سوال کرتا ہے: “اس پہلو پر روشنی ڈالیں کہ امریکہ میں رہتے ہوے جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے بعض مرتبہ وقت نکالنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، کیوں کہ جمعہ یہاں پر ایک ورکنگ ڈے ہے؟”
تمہید کے بعد جواب دیتے ہوے غامدی صاحب کہتے ہیں: “علماء نے بغاوت کرکے مساجد پر قبضہ کیا ہوا ہے، اس لیے جمعہ کی وہ حیثیت (کون سی حیثیت؟ ظاہر ہے کہ جمعہ کی حیثیت فرض کی ہے) نہ پاکستان میں ہے اور نہ یہاں امریکہ میں ہے”۔
جب جمعہ کی وہ حیثیت باقی نہ رہی تو یہی تو کہا جائے گا کہ “جمعہ کی نماز واجب نہ رہی”۔

دوسری ویڈیو میں چار منٹ پچیس سیکنڈ پر کہتے ہیں: “جن ملکوں میں مسلمانوں کی حکومت نہیں ہے، جہاں غیر مسلم لوگ حکومت کررہے ہیں، ان سے توقع نہیں کی جاسکتی کہ اس حکم پر عمل کرنے کے لیے اہتمام کریں گے، تو لوگ اس دن بھی ظہر کی نماز پڑھیں گے اور یہی انھیں پڑھنی چاہیے”۔ ان صریح الفاظ کے بعد یہ کہنا کہ ہم نے غامدی صاحب پر بہتان باندھا ہے، اس کا فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں۔

مشفق صاحب آگے شفقت فرماتے ہوے لکھتے ہیں کہ: “غامدی صاحب نے یہ نہیں کہا کہ جمعہ کی نماز ریاست کا حق ہے، یہاں لفظ حق مفتی صاحب نے اپنی طرف سے ڈال دیا ہے”۔

طویل ویڈیو میں دو منٹ اٹھاون سیکنڈ پر غامدی صاحب فرماتے ہیں: “کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ہر صاحب علم کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی بات بیان کرے، پھر تو یہ ریاست کی طرف سے لوگوں کی رائے میں مداخلت ہو جائے گی؟ انہوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ مداخلت تو علماء ریاست کے حق میں کر چکے ہیں”۔
اسی ویڈیو کے آٹھ منٹ پر کہتے ہیں: “جمعہ کے معاملے میں اس کے برعکس قانون ہے۔ اس کا انعقاد حکمراں کی طرف سے ہوگا اس پر کسی عالم کا حق نہیں ہے اگر حکمران نہیں کرے گا تو آپ ظہر کی نماز پڑھیں گے”.
پہلے اقتباس میں جمعہ کو ریاست کا حق جبکہ دوسرے اقتباس میں جمعہ کی نماز کو حکمراں کا حق قرار دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ بھی قارئین ہی کریں کہ ہم نے اپنی طرف سے غامدی صاحب کی طرف کوئی بات منسوب کی ہے یا غامدی صاحب نے خود ہی ان الفاظ کا استعمال کیا ہے۔

مشفق صاحب یہ بھی لکھتے ہیں کہ: “حکومت اور ریاست میں بدیہی فرق کو شاید مفتی صاحب نہیں سمجھتے”۔
اس بات کا امکان ہے کہ ہم اس فرق کو نہ سمجھتے ہوں لیکن جن لوگوں کا یہ دعوی ہے کہ وہ اس فرق کو سمجھتے ہیں ان سے عرض ہے کہ غامدی صاحب کی مختصر ویڈیو کے بیسویں سیکنڈ میں ان کو یہ کہتے ہوئے سن لیں کہ: “جمعہ کی نماز کو ریاست پر فرض کیا گیا ہے یعنی جب حکومت وجود میں آجائے۔۔۔”
آنجناب کے استاذ محترم نے ہی ریاست اور حکومت کے درمیان کوئی فرق ملحوظ نہیں رکھا۔

مشفق صاحب نے فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ کا حوالہ دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ فقہ حنفی میں جو لکھا ہے غامدی صاحب نے دراصل اسی سے ملتی جلتی بات کہی ہے۔ ہدایہ میں ہے: “ولا يجوز إقامتها إلا للسلطان أو لمن أمره السلطان”۔ یعنی جمعہ قائم کرنا جائز نہیں ہے مگر حکمراں کے لیے یا اس کے لیے جس کو حکمراں نے اجازت دے دی ہو۔
یہاں مشفق صاحب کی شفقت قابل دید ہے۔ اسی کتاب کی مذکورہ بالا عبارت کے فورا بعد جمعہ کے لیے سلطان کے شرط ہونے کی وجہ بھی ذکر کر دی گئی ہے: “لأنها تقام بجمع عظبم، وقد تقع المنازعة في التقدم والتقديم”۔ فتاوی حقانیہ میں مولانا عبدالحق حقانی اس عبارت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: “فقہی ذخائر کی عبارت پر غور کرنے سے اس شرط کے بارے میں معلوم ہو جائے گا کہ سلطان یا اس کے نائب کا وجود مقصود بالذات نہیں ہے، بلکہ فتنے کے سدباب کے لئے ہے۔ لہذا اگر مسلمان باہمی رضامندی سے کسی اور شخص کو امامت جمعہ کے لیے مقرر کریں تو اس کی اتباع میں جمعہ کی ادائیگی میں کوئی شک نہیں ہے۔ (فتاوی حقانیہ جلد 6، ص 405)۔

مشفق صاحب کی بقیہ باتوں کا جواب بھی دیا جاسکتا ہے، لیکن چونکہ اصل موضوع یہ ہے کہ غامدی صاحب نے ان ممالک میں جہاں حکمران جمعہ کی نماز قائم کرنے کا اہتمام نہیں کرتے ہیں وہاں جمعہ کی نماز کو ضروری کہا ہے یا نہیں، اس لیے ان باتوں کو میں درگزر کرتا ہوں۔ غامدی صاحب کی مذکورہ بالا باتوں کی روشنی میں ہمارا دعوی ثابت ہو رہا ہے۔ مشفق صاحب کو چاہیے کہ یا تو وہ یہ کہیں کہ غامدی صاحب نے مذکورہ بالا باتیں نہیں کہی ہیں، یا پھر غامدی صاحب سے لکھوالیں کہ جمعہ کی نماز امریکا پاکستان ہندوستان بنگلہ دیش وغیرہ ممالک میں ابھی بھی فرض ہے۔ اگر ان کی طرف سے یہ بات آجاتی ہے تو ہمیں بھی اپنے مضمون سے رجوع کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں ہوگا۔

آخر میں یہ وضاحت بھی قارئین کے لیے ضروری ہے کہ مشفق صاحب نے چند روز پہلے غامدی صاحب کے مدارس پر دہشت گردی کے الزام کے دفاع میں جو جارحانہ انداز اختیار کیا وہ کسی کو بھی اہل المورد کے انداز کے بارے میں بتانے کے لیے کافی ہے۔ غامدی صاحب ہی ایک ایسی شخصیت ہیں جو اکثر شائستہ انداز میں گفتگو کر لیتے ہیں، لیکن ان کی برادری کے بقیہ افراد اس انداز سے محروم ہیں۔

ہماری طرف سے اب مزید جواب الجواب کا انتظار یا توقع نہ کی جائے۔

0 Shares:
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *