این آر سی کا ملک بھر میں نفاذ

این آر سی کا ملک بھر میں نفاذ
حقائق واندیشے
یاسر ندیم الواجدی

میں اپنی تحریر کا آغاز اس دعا کے ساتھ کر رہا ہوں کہ خدا کرے اس کا ایک ایک لفظ آگے چل کر غلط ثابت ہو۔ اس تحریر کے پیچھے یہ نیت ہرگز نہیں ہے کہ لوگوں کے دلوں میں خوف ہراس پیدا کیا جائے، لیکن اگر آنے والے خطرات سے ہم اپنے آپ کو باخبر نہ کر پائے تو پھران خطرات کا مقابلہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔

این آر سی یعنی شہریوں کا قومی رجسٹر ایک دستوری عمل ہے، جس کی شروعات آزادی کے بعد 1951 میں ہوگئی تھی۔ لیکن ملک کی کرپٹ سیاست کے نتیجے میں یہ رجسٹر اپ ڈیٹ نہیں ہوا، تا آنکہ اسّی کی دہائی میں، آسام میں یہ مسئلہ اٹھا کہ اس علاقے میں لاکھوں بنگلہ دیشی داخل ہوگئے ہیں اور انھوں نے ووٹر آئی ڈی بھی بنالی ہے، جس کے نتیجے میں مقامی لوگوں کی شناخت اور سیاسی حیثیت متاثر ہورہی ہے۔ سالہا سال کی جد وجہد کے بعد سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ این آر سی کو اپ ڈیٹ کیا جائے اور اس کا معیار یہ ہو کہ 24 مارچ 1971 سے پہلے سے جو لوگ ملک میں رہتے چلے آرہے ہیں، ان کو ملک کا شہری تسلیم کیا جائے۔ جو افراد بعد میں آئے ہیں وہ غیر ملکی قرار دیے جائیں۔ کہنے کو یہ ایک دستوری عمل ہے، لیکن جس طریقے سے آسام میں مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دینے کے لیے اس ہتھیار کا استعمال کیا گیا، اس کو سمجھنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ملک کے پانچویں صدر جمہوریہ فخر الدین علی احمد کے بھتیجے ضیاء الدین علی احمد بھی اپنے آپ کو بھارتی شہری ثابت کرنے کے لیے بقیہ چالیس لاکھ لوگوں کی طرح ابھی تک جد وجہد کررہے ہیں۔ شہریوں کی آخری لسٹ اگست کے آخر میں آنے والی ہے، جن لوگوں کا نام اس لسٹ میں آجائے گا وہ خوش نصیب ہوں گے، بقیہ لوگوں کو ہائی کورٹ میں جانے کا اختیار ہوگا، وہاں اپنی شہریت ثابت نہ کر پانے کی صورت میں سپریم کورٹ بھی جانے کا اختیار ہوگا۔

دی کاروان میگزین میں سینیر وکیل سنجے ہیگڈے کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے، جس میں وہ شہریت ثابت کرنے کے لیے قائم ٹربیونلز پر سوالیہ نشان لگاتے ہوے کہتے ہیں، کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کچھ لوگوں کو کانٹریکٹر کی حیثیت سے ملازمت دی گئی ہے، ان کا کوئی قانونی بیک گراؤنڈ نہیں ہے، ان افراد پر سخت دباؤ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو غیر ملکی قرار دیں۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے دو شناخت نامے ثبوت کے طور پر پیش کیے، جن میں سے ایک میں اس کے باپ کا نام محمد فلاں ہے، جب کہ دوسرے میں محد (محمد کا مخفف) فلاں، ٹربیونل افسر دونوں کو یہ کہہ مسترد کردیتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے متعارض ہیں۔ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے جناب ناظم الدین فاروقی صاحب سے میں نے اس تعلق سے گفتگو کی۔ وہ اپنی تنظیم کے ذریعے ایک عرصے سے ایسے افراد کی مدد کر رہے ہیں جن کا نام این آر سی میں آنے سے رہ گیا ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ آر ایس ایس کے لوگوں کو بلا کسی اہلیت کے ٹربیونل افسر بنادیا گیا ہے اور لاکھوں لوگوں کی زندگی ان کے ہاتھ میں دیدی گئی ہے، ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ اور ان کے وکلاء سخت محنت کے باوجود مطلوبہ نتائج نہ نکلنے کی وجہ سے سخت مایوسی کا شکار ہیں۔ سنجے ہیگڈے کے مطابق: عدالتوں میں جانے والے افراد کو بھی مایوسی کا سامنا ہے، کیوں کہ ہائی کورٹ نے بھی ٹربیونل کے فیصلوں کو باقی رکھا ہے۔ ان افراد کے پاس اتنی مالی استطاعت ہی نہیں ہے کہ وہ سپریم کورٹ تک چلے آئیں۔ یہ ایک عجیب قانون ہے جس کے مطابق فرد کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ بغیر کسی شک و شبہ کے ملک کا شہری ہے، گویا ہر فرد کو یہ تسلیم کرکے چلا جارہا ہے کہ وہ غیر ملکی ہے، لہذا اگر کسی شخص کا نام ابراہیم ہے اور اس کے ایک شناخت نامے میں، یہ نام ای سے شروع ہوتا ہے، جب کہ دوسرے میں آئی سے، تو وہ شخص ان شناخت ناموں کی بنیاد پر اپنے آپ کو ملک کا شہری ثابت نہیں کر پائے گا۔

آسام میں ابھی تک اس طریقہ پر عمل ہوتا آرہا ہے۔ ناظم الدین فاروقی صاحب کے مطابق ستر ہزار سے زائد لوگ ڈٹینشن کیمپوں میں بند کردیے گئے ہیں، تقریبا ساڑھے تین لاکھ لوگ گرفتاری کے خوف سے اپنے گھروں سے فرار ہیں اور بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اپنے تاریک مستقبل سے مایوس ہو کر خودکشی کر چکے ہیں۔

طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون بنائے جانے اور دفعہ370 کے کامیابی کے ساتھ ختم کیے جانے کی وجہ سے، بی جے پی کے حوصلے بلند ہیں۔ رام ناتھ کووند نے بھی اپنے صدارتی خطاب میں (جو دراصل حکومتی پالیسی سے متعلق ہوتا ہے) کہہ دیا ہے کہ موجودہ حکومت آسام کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں میں این آر سی اپ ڈیٹ کرنے کا سلسلہ شروع کرنے جارہی ہے۔ انڈیا ٹوڈے کی تین اگست کی اشاعت کے مطابق: سب سے پہلا مرحلہ این پی آر یعنی نیشنل پاپولیشن رجسٹر کا ہے، جس کا آغاز یکم اپریل دو ہزار بیس سے ہوگا اور تیس ستمبر دوہزار بیس کو یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ این پی آر کے تحت گاؤں گاؤں شہر در شہر عام رہائش پذیر لوگوں کا نام، پتہ، فوٹو اور فنگر پرنٹس کا اندراج ہونا ہے۔ عام رہائش پذیر سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی بھی جگہ چھ ماہ یا اس سے زائد عرصے سے مقیم ہیں۔ این پی آر کے ذریعے ملک میں رہائش پذیر لوگوں کا مکمل “ڈیٹا بیس” حکومت کے پاس آجائے گا، اس کے بعد این آر سی کا عمل شروع ہوگا۔

حکومت نے ابھی تک یہ واضح نہیں کیا ہے کہ کن بنیادوں پر، آسام کے علاوہ ملک بھر میں فرد کو شہری تسلیم کیا جائے گا۔ اگر آدھار کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ کی بنیاد پر این آر سی کا عمل ہوتا ہے تو خطرے کی کوئی بات نہیں ہے، لیکن اگر آسام کا طریقہ کار ملک بھر میں نافذ کیا جاتا ہے تو انسانی تاریخ کا ایک بڑا المیہ خدا نخواستہ ہمارا منتظر ہے۔

آسام میں ٹربیونل کے تعصب اور ظلم کے علاوہ یہ طریقہ رہا ہے کہ فرد یہ ثابت کرے کہ اس کے پاس 1971 سے پہلے کا جاری کردہ حکومتی شناخت نامہ جیسے پاسپورٹ، برتھ سرٹیفکیٹ، ایل آئی سی وغیرہ موجود ہے یا نہیں۔ وہ افراد جو 1971 سے پہلے پیدا ہوگئے اور ان کے پاس یہ ڈاکیومنٹس موجود تھے اور ابھی تک ہیں وہ شہری تسلیم کیے جائیں گے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص 1951 سے پہلے پیدا ہوگیا تھا اور اس کا نام اُس دور میں قائم ہوے این آر سی میں ہے تو وہ بھی ملکی شہری ہے۔ جو لوگ 1971 کے بعد پیدا ہوے ہیں، ان کے پاس خواہ پاسپورٹ ہی کیوں نہ ہو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، وہ اپنے پاسپورٹ کو صرف اپنے والدین کا نام ثابت کرنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ لیکن اپنے کو شہری ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے والدین یا اس کے دادا دادی میں سے کوئی ایک 1951 کے این آر سی میں ہوں، یا کم از کم 1971 سے پہلے ہی آسام میں داخل ہوچکے ہوں۔ لہذا وہ اپنے والدین یا اجداد کے شناخت نامے پیش کرے، جو ظاہر ہے کہ ایک بہت بڑی تعداد کے پاس موجود نہیں ہیں۔ اس کا ایک طریقہ یہ بھی رہا ہے کہ اگر اس کے والد نے کوئی جائداد خریدی ہے تو اس کے کاغذات پیش کیے جائیں، جائداد اگر 1971 کے بعد خریدی گئی ہے تو کاغذات میں دادا کا نام ہوگا، لہذا دادا کے نام سے اگر کوئی جائداد 1971 سے پہلے کہیں رجسٹرڈ تھی تو اس کے کاغذات پیش کیے جائیں۔ اس طرح وہ شخص اپنے کو ملکی شہری ثابت کرسکتا ہے۔

ملکی پیمانے پر ہونے والے رجسٹریشن میں اگر اسی طریقے کو اپنایا گیا اور 1971 کو معیار مان لیا گیا تو بھی مصیبت چھوٹی نہیں ہے، لیکن اگر 1951 کو معیار مان لیا گیا تو کروڑوں لوگوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ فوری طور پر اپنی اور اپنے آبا واجداد کے نام جائدادوں کے کاغذات تلاش کیے جائیں، ظاہر ہے کہ جن کی جائدادیں اور مکانات جدی ہوں گے وہی یہ کام کرسکتے ہیں، بقیہ لوگ کم از کم اپنے تمام شناخت ناموں اور ووٹر آئی ڈیز میں نام کی اسپیلنگ درست کرائیں۔ کیوں کہ حکومت کی جانب سے جب این آر سی کے لیے طریقہ کار کا اعلان ہوگا اور قابل قبول ڈاکیومنٹس کی لسٹ جاری ہوگی، اس وقت رشوتوں کا بازار گرم ہوچکا ہوگا، سرکاری ملازم معمولی تصحیح کے لیے ہزاروں نہیں شاید لاکھوں اینٹھ رہے ہوں گے۔

جو لوگ آسام میں آخری لسٹ کے مطابق اپنے کو شہری ثابت نہیں کرپائیں گے وہ بقیہ ستر پچھتر ہزار لوگوں کی طرح ڈٹینشن کیمپس میں ڈال دیے جائیں گے، جس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ وہ ووٹنگ کے حق سے تو محروم ہیں ہی، اپنے ہی مکانوں کے مالکانہ حق سے بھی محروم ہوں گے اور بنگلہ دیش کے بہاری نژاد افراد اور برما کے روہنگیا کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں گے۔ آسام کے فینانس منسٹر نے ایک انٹرویو میں واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو ووٹ اور مالکانہ حق سے محروم کردیں گے۔

یہی طریقہ کار اگر خدا نخواستہ ملک بھر میں نافذ کیا گیا اور مشہور صحافی ونود دووا کے مطابق کروڑ دو کروڑ مسلمان اپنے کو شہری ثابت نہ کر پائے تو یہ انسانی تاریخ کا ایک بڑا المیہ ہوگا۔ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا اس لیے ہے کہ بی جے پی حکومت “سیٹیزن شپ امینڈمنٹ بل” بھی پیش کرنے جارہی ہے، جس کے مطابق کوئی بھی غیر مسلم اگر اپنے کو شہری ثابت نہیں کر پایا تو ملک میں سات سال رہنے کی بنیاد پر اس کو شہریت عطا کردی جائے گی۔ یہ قانون جہاں ایک طرف شہریوں کے درمیان امتیازی سلوک کا سب سے بڑا مظہر ہوگا، وہیں کتنے ہی مسلمان مجبورا اسلام ترک کرکے کوئی دوسرا مذہب بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ شدت پسند تنظیموں کے لیے عام مسلمانوں کی “گھر واپسی” ایک دیرینہ خواب ہے۔

میری درخواست ہے کہ تمام ملی تنظیمیں اس تعلق سے مل بیٹھیں اور متحد ہوکر تمام امکانات کا جائزہ لیں اور آنے والی ممکنہ مصیبت سے پہلے ہی مکمل تیاری کرلیں۔ اس کے لیے عام مسلمانوں کے کاغذات کی تیاری میں تعاون بھی اپنے ایجنڈے میں شامل رکھیں، ہر تنظیم اگر اپنے طور پر یہ کام کرے گی تو اتنا موثر نہیں گا۔ جو لوگ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں وہ سب سے پہلے تو یہ دعا کریں یہ سب باتیں جھوٹی نکلیں، دوسرے نمبر پر وہ اپنے کاغذات کی تیاری کے لیے کمر کس لیں۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اسی وقت آتی ہے جب انسان خود متحرک ہوتا ہے۔ حسبنا اللہ ونعم الوکیل

0 Shares:
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *