خدا خالق شر نہیں ہے۔ غامدی

“خدا خالق شر نہیں ہے” غامدی:
یاسر ندیم الواجدی

غامدی صاحب سے سوال و جواب کی نشست پر مشتمل ایک ویڈیو میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا خدا خالق شر ہو سکتا ہے؟ جواب میں غامدی صاحب کہتے ہیں کہ “قرآن مجھے بتاتا ہے کہ تمہارا پروردگار کیا کرتا ہے۔ معنی کی حد تک جس چیز سے آپکو اطمینان ہو آپ مان لیں، لیکن میرے اندر کھٹک تو پیدا ہو گی کہ کیا میں جس پروردگار کو مان رہا ہوں وہ جھوٹ بھی بولے گا، وعدہ خلافی بھی کرے گا؟ یہ اخلاقی شر تو اس کو انسان کی جگہ پر لے آیا۔ قرآن نے اس تصور کو دور کر دیا۔ جو کچھ بھی شر پیدا ہوتا ہے وہ مخلوقات کے عمل سے پیدا ہوتا ہے جن کو اللہ نے ارادہ واختیار دیا ہے۔ میرے پروردگار نے کتاب اور پیغمبر کے ذریعے قابل اطمینان جواب دے دیا کہ میری طرف سے کسی شر کا صدور نہیں ہوگا”۔

یہ ایک خالص فلسفیانہ بحث ہے جس کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں تھی، لیکن غامدی صاحب نے کسی وجہ سے اس کو ضروری سمجھا اور تفصیل سے جواب دیا، حالانکہ جب جنت و جہنم کی تفصیلات یا قادیانیوں کے کفر کے تعلق سے غامدی صاحب سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ بلاتکلف سوال کو نا معقول قرار دے کر اس کو مسترد کر دیتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ ان کا رویہ مختلف رہا۔ چوں کہ غامدی صاحب کی یہ ویڈیو وائرل ہو رہی ہے اور عقلیت پسند نوجوان کنفیوژن میں مبتلا ہو رہے ہیں اس لیے اس تعلق سے اہل سنت والجماعت کا نظریہ واضح کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ سوال کرنے والے نے غامدی صاحب سے اللہ کے خالق شر ہونے کے تعلق سے سوال کیا تھا۔ جواب میں غامدی صاحب نے اللہ کے خالق شر ہونے کو تسلیم نہ کرتے ہوے دلیل یہ دی کہ بھلا وہ جھوٹ کیسے بول سکتا ہے، وہ وعدہ خلافی کیسے کر سکتا ہے، بھلا اس سے کسی شر کا صدور کیسے ہو سکتا ہے؟ گویا دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ اللہ تعالی فاعل شر نہیں ہے۔ خالق شر ہونا اور فاعل شر ہونا دو الگ الگ مسئلے ہیں۔

معتزلہ کا نظریہ یہ رہا ہے کہ اللہ تعالی بندوں کے افعال کا خالق نہیں ہے خواہ وہ افعال خیر ہوں یا شر۔ ان کے مقابلے میں اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی خیر و شر دونوں کا خالق ہے اور بندہ خیر و شر دونوں کا کاسب یعنی کرنے والا ہے۔ غامدی صاحب نے نہ اہل سنت کا مذہب اختیار کیا اور نہ ہی معتزلہ کا۔ انہوں نے خدا کو خیر کا خالق تو تسلیم کیا لیکن شر کا خالق، انسان کو اس بنیاد پر قرار دیا کہ اللہ نے انسان میں ارادے اور اختیار کی آزادی رکھی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ جس آزادی اور اختیار کی بنیاد پر انسان شر کا خالق قرار پایا، کیا خیر کے اعمال کرنے میں انسان کے ارادے اور اختیار کا دخل نہیں ہے؟ اگر اس بنیاد پر وہ شر کا خالق ہو سکتا ہے تو خیر کا خالق کیوں نہیں ہو سکتا؟

خود غامدی صاحب کے استاذ مولانا امین احسن اصلاحی تدبر قرآن میں “ومن كل شيء خلقنا زوجين” کی تفسیر میں فرماتے ہیں: “اس کائنات میں اللہ تعالی نے ہر چیز جوڑے جوڑے پیدا کی ہے۔ ہر چیز اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر ہی اپنی غایت اور اپنے مقصد کو پورا کرتی ہے”۔
اس لیے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ خیر کا خالق تو ہو لیکن شر کا خالق نہ ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ خیر اور شر دونوں مل کر جوڑا بن تو گئے ہیں، بس فرق اتنا ہے کہ خیر کو اللہ نے پیدا کیا اور شر کو انسان نے، تو جواب یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالی نے ہر چیز کے جوڑے کی تخلیق کی نسبت اپنی طرف کی ہے۔

اگر غامدی صاحب کے اس دعوے کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ انسان ہی شر کا خالق ہے، تو خالق کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی پیدا کردہ چیز کی جملہ تفصیلات سے واقف ہو، لیکن انسان جب کسی شر کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اس کی جملہ تفصیلات سے واقف نہیں ہوتا۔ مثلا کسی انسان نے اگر قتل کیا تو وہ اس بات سے واقف نہیں ہو سکتا کہ اس شر کے لیے اس کے دماغ سے کتنے سگنل صادر ہوئے، کتنے اعصاب اور اعضاء نے اس کا ساتھ دیا، آلہ قتل مقتول کے جسم میں کن کن اعضاء اور اعصاب کو چیرتا ہوا داخل ہوا وغیرہ وغیرہ۔ اس لیے ان عقلی بنیادوں پر غامدی صاحب کا دعوی درست قرار نہیں پاتا۔

اگر غامدی صاحب کے دل میں اللہ تعالی کے خالق شر ہونے کی بنیاد پر کھٹک پیدا ہو سکتی ہے، جس کی وجہ سے انہوں نے اس عقیدے کا سرے سے انکار کر دیا، تو کیا اللہ کے خالق شیطان ہونے کی بنیاد پر ان کے دل میں کھٹک پیدا نہیں ہونی چاہیے؟ شیطان کو پیدا کرتے ہوئے اللہ تعالی کو یقینا یہ معلوم تھا کہ یہ مخلوق ہی مجسم شر ہوگی۔ امید ہے کہ وہ اس کی یہی تاویل کرتے ہوں گے کہ اللہ تعالی کی حکمت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ شیطان کو پیدا کیا جائے، تو یہی تاویل شر کے پیدا کرنے میں کیوں نہیں کی جاسکتی؟

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے آخر شر کو پیدا کیوں کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے اللہ تعالی کی حکمت کا اظہار مقصود تھا۔ انسان کی فضیلت اسی صورت میں ظاہر ہو سکتی ہے جب کہ اس کے سامنے خیر اور شر دونوں موجود ہوں اور وہ خیر کو اختیار کرے۔

واضح رہے کہ جمہور اشاعرہ وماتریدیہ کے یہاں یہ بحث بھی ہوئی ہے کہ کیا معتزلہ بندوں کو اپنے افعال کا خالق ماننے کی وجہ سے مشرک قرار دیے جائیں گے۔ ان حضرات نے معتزلہ کو مشرک نہ قرار دیتے ہوئے ان کو اہل سنت والجماعت سے خارج قرار دیا ہے۔

غامدی صاحب کا مذکورہ بالا عقیدہ نہ صرف یہ کہ عقل کے خلاف ہے بلکہ قرآن کی بہت سی آیات کے بھی خلاف ہے، جن میں سے ایک آیت اوپر ذکر کر دی گئی ہے۔ بظاہر یہ علم کلام کا ایک خشک سا مسئلہ لگتا ہے لیکن درحقیقت اس کا تعلق اسلامی عقائد سے ہے اور عقائد کے تعلق سے ہر مسلمان کو بہت محتاط ہونا چاہیے۔

0 Shares:
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *