عمر دابا سے فون پر گفتگو

عمر دابا سے فون پر گفتگو
یاسر ندیم الواجدی

ناروے میں مقیم شامی مہاجر اور عالم اسلام کے ہردلعزیز ہیرو عمر دابا سے فون پر گفتگو ہوئی۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کروڑوں لوگوں کے ہیرو بن چکے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ وہ اکیلے نہیں تھے بلکہ یہ پانچ دوستوں کا کارنامہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس نوجوان کا فوٹو مشہور ہوا، وہ ان کا دوست قُصَی ہے، جب کہ ان کا نام اس فوٹو کے ساتھ چل رہا ہے۔ نیچے دیا گیا مشہور فوٹو قصی کا ہے، جب کہ دوسرا عمر کا ہے۔

کیس کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ وہ سب رہا ہوچکے ہیں اور انھیں سترہ سو یورو بطور جرمانہ ادا کرنے ہیں، جب کہ قرآن جلانے والے شخص پر قائم ہونے والا مقدمہ زیادہ سخت نوعیت کا ہے۔ اگر تحقیقات میں ثابت ہوگیا کہ وہ ملعون نفرت پھیلانے کے لیے اس حرکت کو انجام دے رہا تھا (ظاہر ہے یہی مقصد تھا)، تو اس کو تین سال کی قید ہوسکتی ہے۔

عمر دابا بہت متواضع شخص ہیں، ان کا اپنے چاروں دوستوں کو اپنی کامیابی میں شامل کرنا اور خود ہی بتانا کہ میں نے یہ کام اکیلے نہیں کیا ہے، ایک اچھے انسان ہونے کی علامت ہے۔ ناروے کی حکومت کی بھی پذیرائی ہونی چاہیے کہ اس نے ماضی میں امریکہ یا ڈنمارک کی طرح آزادی اظہار رائے کی دہائی دے کر مجرم کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ اس پر سنگین مقدمہ قائم کردیا اور فوری طور پر قرآن یا کسی بھی مذہبی علامت کی توہین کرنے کو جرم قرار دے دیا۔

0 Shares:
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *