ماموں وچچا زاد سے نکاح پر اعتراض اور اس کا جواب

ماموں وچچا زاد سے نکاح پر اعتراض اور اس کا جواب
یاسر ندیم الواجدی

اسلام میں ماموں خالہ اور چچا وپھوپھی زاد سے نکاح کے جواز پر اعتراض کرنے والے ہندووں کو آپ انھی کی کتاب سے یہ “کتھا” ضرور سنائیں۔

دیوی بھاگوت میں شری نامی عورت کی کہانی لکھی ہے کہ جب اس نے کائنات کی تخلیق کی تو اس کی خواہش ہوئی اور اس نے اپنا ہاتھ رگڑا، ہاتھ میں آبلہ پڑگیا جس سے برہما پیدا ہوے، شری نے کہا کہ تو مجھ سے شادی کر، برہما نے کہا کہ میں نہیں کرسکتا، کیوں کہ تو میری ماں ہے۔ اس کو یہ سن کر غصہ آیا اور اس نے برہما کو جلاکر راکھ کردیا۔ پھر دوسرا لڑکا اسی طرح پیدا ہوا جس کا نام وشنو تھا وہ بھی شادی سے انکار کرنے پر جلادیا گیا۔ آخر کار تیسرا لڑکا ہوا جس کا نام مہا دیو تھا۔ اس نے کہا: میں تجھ سے شادی نہیں کرسکتا، تو دوسرا جسم اختیار کرلے، میں شادی کرلوں گا، چناں چہ ایسا ہی کیا۔ پھر مہا دیو نے کہا کہ یہ دو راکھ کے ڈھیر کیسے ہیں، شری نے کہا کہ یہ تیرے بھائی ہیں۔ مہا دیو نے کہا کہ میں اکیلا ہوں، تو ان کو بھی زندہ کردے اور دو عورتیں مزید پیدا کر۔ اس طرح شری سمیت تین عورتیں ہوگئیں، جن سے تینوں بھائیوں کی شادی ہوئی۔

عجیب بات یہ ہے کہ مہادیو اپنی ماں سے شادی کرنے پر راضی نہیں تھا لیکن بہنوں سے شادی پر اس کو کوئی پریشانی نہیں تھی، جب کہ اس کی بیوی نے صرف اپنا جسم یعنی ظاہر ہی بدلا تھا، ورنہ اصلا تو مہادیو کی ماں تھی۔

نیز اگر پہلی کزن، یا دوسری وتیسری کزن جس سے دادا یا پردادا میں جاکر نسب ملتا ہے بہن ہی کی طرح ہے اور اس سے نکاح جائز نہیں ہونا چاہیے، تو سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ یہیں کیوں رکے۔ سناتن دھرم کے مطابق تو انسانیت ایک کنبہ ہے، بیس تیس پشتوں پہلے جن کا نسب جاکر ملتا ہو ان سے بھی نکاح جائز نہ ہو، بلکہ کسی سے بھی نکاح جائز نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ کہیں نہ کہیں اس سے نسب جاکر مل ہی جائے گا۔ اس لیے انسان جب خدا کی طے کردہ باؤنڈری سے باہر قدم رکھ کر، اپنی باؤنڈری خود بنانے کا ارادہ کرتا ہے، تو اس دائرے کو اسی جگہ کھینچنے کے لیے کوئی معقول وجہ درکار ہوگی، لیکن اگر خدا کی ہی طے کردہ باؤنڈری میں انسان اپنے کو محدود رکھے، تو اس کو خدا کے بیان کے علاوہ کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ نے محارم کا ایک دائرہ طے کردیا ہے، جو اس دائرے میں ہے اس سے نکاح درست نہیں ہے، یہ دائرہ کیوں کہ انسان نے طے نہیں کیا ہے، اس لیے اس کے ثبوت کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ اللہ کا حکم ہے۔ لیکن اگر غیر محارم کو مثلا چچا یا ماموں زاد کو بھی اس دائرے میں شامل کردیا جائے، تو سوال ہوگا کہ فرسٹ کزن ہی کیوں، سیکنڈ کزن یعنی دادا کے بھائی بہن کی اولاد کیوں محارم میں داخل نہ ہو، ان کو بھی شامل کرلیا جائے تو جہاں بھی رکیں گے، اس کے لیے معقول دلیل درکار ہوگی، ورنہ اسی اصل کی طرف لوٹ کر آنا ہوگا کہ جن سے خونی رشتہ ہے ان سے نکاح بھی درست نہیں ہے۔

پھر یہ اعتراض ان لوگوں کی طرف سے تو ہرگز نہیں ہونا چاہیے جو ایسے قصے کہانیوں میں یقین رکھتے ہوں جن کی رو سے ان کے بڑوں نے اپنی ماں، بہنوں سے نکاح کرلیا ہو اور جن کے مطابق کائنات کی بنانی والی دیوی اپنے نکاح کی خواہش پوری نہ کر پانے پر اپنی ہی اولاد کو جلا کر راکھ کردیتی ہو۔

0 Shares:
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *