مضمون عورتوں کے مسجد میں داخلے کے موضوع پر نہیں ہے

مضمون عورتوں کے مسجد میں داخلے کے موضوع پر نہیں ہے
یاسر ندیم الواجدی

امریکہ کی تقریبا ہر مسجد میں خواتین کے لیے الگ انتظام ہے اور کچھ خواتین آتی بھی ہیں، اس لیے یہاں مسئلہ دوسرا ہے۔ بڑی تعداد میں ایسی مساجد ہیں جہاں لبرل خواتین کی طرف سے مطالبہ ہے کہ ان کو مردوں کی صف کے پیچھے اگر کھڑا کرنا ہی ہے تو درمیان میں دیوار بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو دیوار نہیں تھی۔ ہمارے شہر کی ایک مسجد میں جہاں مجھے کبھی کبھار جمعہ پڑھانا ہوتا ہے، کچھ خواتین کا معمول ہے کہ وہ اس دیوار کے آگے آکر نماز پڑھتی ہیں۔ “رجعت پسند” خواتین اس دیوار کے پیچھے ہی رہتی ہیں۔ شکاگو کی قدیم ترین مسجد میں، دو ہزار چار کے کمیٹی انتخابات میں “وکاس” کا مدعا چھایا ہوا تھا۔ لبرل پارٹی دیوار ہٹانے کے حق میں تھی اور رجعت پسند مولوی حضرات نے لبرل مخالف پارٹی کو اس شرط پر باہر سے حمایت دی تھی کہ الیکشن جیتنے کے بعد درمیانی دیوار نہیں ہٹائیں گے۔

ایک مسجد میں پچھلے سال عید کے موقع پر جب ہم نماز پڑھا کر اور لوگوں سے مل ملا کر باہر نکلے، تو مسجد کے پارکنگ ایریے میں “رنگا رنگ” فوٹو شوٹ تقریب جاری تھی۔ خواتین زرق برق بلکہ برق ورق کپڑوں میں رُبّ كاسيات عاريات کی مجسم “اردو شرح” بنی ہوئی عید کی خوشی کے موقع پر فوٹوز کھنچوارہی تھیں۔

کچھ مساجد میں خواتین نے ایک قدم آگے جاکر یہ مطالبہ کیا ہے وہ پیچھے نماز کیوں پڑھیں۔ جب اسلام مساوات کا قائل ہے تو مرد وعورت برابر برابر نماز کیوں نہیں پڑھ سکتے۔ اگر ملامسہ سے اتنا ہی خوف ہے تو درمیان صف میں ایک فٹ اونچی فینس نصب کردی جائے۔ ایک طرف خواتین نماز پر توجہ دیں اور دوسری طرف مرد حضرات ان پر توجہ ڈالتے رہیں۔ بوسٹن شہر میں اس کا کامیاب تجربہ جاری ہے۔

ترقی کی اس لہر میں ایک مدرسے نے بھی تاریخ میں اپنا نام لکھوانے کی کوشش کی ہے۔ ڈیلاس کے اس مدرسے میں طلباء وطالبات ایک ہی درسگاہ میں ہوتے ہیں۔ درمیان میں ایک “فالتو” سی دیوار ہے، ایک طرف طلباء اور دوسری طرف طالبات۔ استاذ صاحب کو حکم ہے کہ وہ عورتوں کی طرف بیٹھیں اور طلباء کو حکم ہے کہ اگر استاذ نظر آجائیں تو ان کی خوش قسمتی ورنہ سننے پر اکتفا کریں۔ جن حضرات کو اس عظیم تجربے پر حیرت ہو ان کی تسلی کے لیے درسگاہ کا فوٹو بھی مہیا کرایا جاسکتا ہے جو ما شاءاللہ مدرسے نے اپنی تشہیر کے لیے خود ہی سوشل میڈیا پر ڈالا ہے۔

تو حضرات! آپ لڑتے رہیے کہ عورتیں مسجد میں جائیں یا نہ جائیں، ہمارے یہاں تو عورتیں مریخ پر جاکر امامت کرنے والی ہیں۔ آپ لوگ واقعی بڑے پسماندہ واقع ہوے ہیں۔

0 Shares:
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *