“نماز جمعہ واجب نہیں رہی”


“نماز جمعہ واجب نہیں رہی”
یاسر ندیم الواجدی

آجکل غامدی صاحب کی ایک ویڈیو خوب وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ یہ کہتے ہوئے سنے جا سکتے ہیں کہ “جمعہ کی نماز ریاست کا حق ہے، ریاست کے نمائندے ہی جمعہ کی نماز کی امامت کرا سکتے ہیں اور خطبہ دے سکتے ہیں۔ علماء کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ منبروں پر قبضہ کریں ان کا ایسا کرنا دراصل ریاست کے خلاف بغاوت کے زمرے میں آتا ہے”۔ یہ کہہ کر غامدی صاحب نے ہندوستان پاکستان بنگلہ دیش اور دنیا کے بیشتر ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کی جمعہ کی نماز معطل کر دی ہے۔

دراصل مسئلہ جمعہ کی نماز نہیں ہے، بلکہ علماء کی قیادت ہے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ علماء کی قیادت مدرسوں اور مساجد کے منبروں سے قائم ہے۔ اس لیے اولا تو انہوں نے مدارس کو دہشت گردی کے مراکز کے طور پر پیش کیا، دوسرے نمبر پر یہ فتوی داغ دیا کہ علماء کو جمعہ کی نماز پڑھانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ فطری طور پر یہ سوال ہونا تھا کہ حکومت کے نمائندے تو نماز پڑھاتے نہیں ہیں اور علماء بھی نہ پڑھائیں تو جمعہ کی نماز کیسے قائم ہوگی؟ اس کے لیے غامدی صاحب نے جمعہ کی نماز ہی کینسل کردی۔ وہ کہتے ہیں کہ “جمعہ کی نماز دراصل ظہر کی نماز کا بدل ہے اگر بدل قائم نہیں کیا جا سکتا ہو، تو حکم اصل کی طرف لوٹ جائے گا”۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ غامدی صاحب الفاظ بڑی احتیاط سے استعمال کرتے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ اگر میں جمعہ کی نماز کو صرف ریاست کا حق بتاؤں گا، تو یہ سوال کھڑا ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے مدینہ منورہ میں جمعہ کی نماز کیوں قائم ہوئی جبکہ وہاں کوئی اسلامی ریاست نہیں تھی۔ اس اعتراض سے بچنے کے لیے انہوں نے جن الفاظ کا انتخاب کیا، ان پر جتنی داد دی جائے اتنی کم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مدینے میں چونکہ اسلامی ریاست کی “بنیاد” پڑ چکی تھی اس لیے مسلمانوں نے مدینہ میں جمعہ کی نماز ادا کرنی شروع کر دی تھی۔

یہ استدلال بھی بڑا عجیب ہے۔ ابھی ریاست قائم نہیں ہوئی ہے، بلکہ صرف بنیاد پڑی ہے لیکن ریاست نے اپنا کام کرنا پہلے ہی شروع کر دیا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ میرے مکان کی بنیادیں بن گئی ہیں، لہذا میں نے اپنے مکان میں رہنا شروع کردیا ہے کیونکہ مکان تو بننا ہی ہے۔

جمعہ کی نماز کو ریاست کا حق قرار دے کر اس نماز کو کینسل کرانے کی کوشش میں، غامدی صاحب یہ بھول گئے کہ وہ تو اسلامی ریاست کے خلاف ہیں۔ ایک ویڈیو میں وہ یہ کہتے ہوئے سنے جا سکتے ہیں کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مدینہ کی ریاست کا قائم کرنا ضروری نہیں تھا، وہ تو اتفاقا قائم ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ جب مدینے کی ریاست ہی ایک اتفاقی حادثہ قرار پائی تو پھر مسلمانوں کے لیے اسلامی ریاست کا تصور ہی ختم ہو گیا۔ تو کیا غامدی صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جمعہ کی نماز قائم کرنا ایک سیکیولر ریاست کے سربراہ کی ذمہ داری ہے؟

اپنے استدلال کو تقویت دینے کے لیے غامدی صاحب اپنے مخاطبین سے پوچھتے ہیں کہ “کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے یا امام شافعی نے یا امام احمد ابن حنبل نے جمعہ کی نماز پڑھائی ہو؟” کیا یہ مضحکہ خیز نہیں ہے کہ ایک طرف تو غامدی صاحب کے نزدیک حدیث حجت نہیں ہے، فقہ اور ائمہ کی تقلید کی تو کیا حیثیت ہے۔ لیکن جہاں اپنا مطلب نکلتا ہو، وہاں ائمہ کی تقلید بھی موصوف کے یہاں گوارا ہے۔

غامدی صاحب کے اصول کے مطابق اگر استدلال صرف قرآن سے ہی کرنا ہے اور سنت کو اسی صورت میں تسلیم کیا جاسکتا ہے جب وہ ان کی عقل کے مطابق قرآن کے معارض نہ ہو، تو سورہ جمعہ کی آیت جس میں عام مومنین کو جمعہ کی نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے کس بنیاد پر ترک کیا گیا؟

غامدی صاحب نے علماء کو منبروں سے دور رکھنے کی کوشش میں دو اصطلاحوں کے درمیان بھی خلط ملط کیا ہے۔ ان کے مطابق جمعہ کی نماز قائم کرنا ریاست کا حق ہے۔ انہوں نے اسلامی ریاست کی ذمہ داری کو ریاست کا حق قرار دے دیا۔ حالانکہ ذمہ داری اور حقوق دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اسلامی فقہ کے مطابق جمعہ کی نماز کا قیام ریاست کی ذمہ داری ہے، یہ ریاست کا حق نہیں ہے۔ یہ عوام کا حق ہے اگر اس کو ریاست پورا کرنے کی استطاعت رکھتی ہے تو یہ اسی کی ذمہ داری ہے، لیکن اگر ریاست یہ ذمہ داری نہ اٹھا سکے، تو دوسرے ذرائع سے عوام اپنا حق حاصل کریں گے۔

ہمارا استدلال واضح ہے۔ ہم سورہ جمعہ کو کسی بھی صورت میں معطل تصور نہیں کرتے ہیں۔ جہاں ریاست جمعہ کی نماز قائم کرنے کی ذمہ داری پوری نہیں کریگی، وہاں مسلمانوں کی جمعیت اس ذمہ داری کو نبھائے گی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ مدینہ کی ریاست قائم ہونے سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ نے جمعہ کی نماز قائم کی۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے بارہ لوگوں کے ساتھ مل کر جمعہ کی نماز قائم فرمائی۔ غامدی صاحب کو اگر علماء کے طبقے سے پریشانی ہے تو وہ اپنی پریشانی کے اظہار میں آزاد ہیں، لیکن انہیں چاہیے کہ وہ مسلمانوں کی عبادت سے کم ازکم کھلواڑ نہ کریں۔

0 Shares:
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *