سڈنی میں تین روز

سڈنی میں تین روز
یاسر ندیم الواجدی

گزشتہ ماہ آسٹریلیا کے صوبے نیو ساؤتھ ویلز میں واقع یونیورسٹیوں کی مسلم طلبہ ایسوسی ایشنز کے مشترکہ پلیٹ فارم کی طرف سے یک روزہ کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ راقم اس سے پہلے بھی سڈنی کا ایک ہفتے پر مشتمل دعوتی و تعلیمی دورہ کرچکا ہے۔ اس مرتبہ لبرلزم سے متاثر نوجوانوں کی طرف سے دعوت موصول ہوئی تھی جس کو غوروفکر اور مشورے کے بعد قبول کرلیا گیا۔ چناں چہ 16 اکتوبر 2019 کو براہ “سان فرانسسکو” سڈنی کے لیے شکاگو سے روانہ ہوا اور اکیس گھنٹے کے طویل سفر کے بعد 18 اکتوبر کی صبح سڈنی ایرپورٹ پر ہمارا جہاز اترا۔
میرے پچھلے سفر میں یہاں کے بہت سے احباب سے اچھی خاصی شناسائی ہوگئی تھی۔ یہ حضرات دو ہزار سترہ میں احقر کے سڈنی یونیورسٹی میں دیے گیے علوم حدیث کے لیکچرز میں شامل رہے تھے۔ انھیں میں ڈاکٹر آصف صاحب بھی ایک علم دوست شخصیت ہیں۔ موصوف میڈیکل ڈاکٹر ہونے کے باوصف دینی علوم سے اچھا خاصا شغف رکھتے ہیں اور مستقل دینی کتابیں پڑھتے رہتے ہیں۔ موصوف مجھے ایرپورٹ سے لیکر اپنے دولت کدے پر آگئے اور پھر وہاں سے ہم جمعہ کے لیے نکلے۔ جمعہ کی تقریر میں “ارتداد اسباب و علل” کے موضوع پر گفتگو کرنے کا موقع ملا۔

سڈنی شہر کی ایک مشہور علمی شخصیت محترم جناب ڈاکٹر انس ندوی صاحب سے، پہلے سے غائبانہ نیاز حاصل تھا۔ موصوف کی تعلیم وصیت العلوم الہ آباد، دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم ندوة العلماء جیسے اداروں میں ہوئی ہے۔ آپ عرصہ سے سڈنی میں مقیم ہیں اور آسٹریلیا کی ایک بڑی مسلم تنظیم کے حلال ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں۔ سنیچر کے دن موصوف نے پہلے اپنے گھر پر اور پھر شہر کے ایک مشہور ریسٹورنٹ پر کچھ دوست واحباب کے ساتھ پر تکلف عشائیہ دیا۔ مجلس فکر اسلامی نامی ایک واٹس ایپ گروپ پر ان کی تواضع اور علمی نکتہ دانی کا پہلے ہی سے معترف تھا، ملاقات کے بعد ان کی خورد نوازی کا بھی قائل ہوا۔

اتوار کے دن صبح دس بجے سے کانفرنس کا آغاز تھا۔ کانفرنس اس اعتبار سے غیر مفید رہی کہ منتظمین نے ہر موضوع پر پینل ڈسکشن رکھا تھا۔ ایک موضوع کے لیے ایک گھنٹہ مختص تھا، جب کہ ہر پینل میں کم از کم چار افراد شامل تھے۔ غالبا منتظمین کے سامنے یہ حکمت رہی ہوگی کہ اس فارمیٹ سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی آراء سے استفادے کا موقع ملے گا، لیکن لیکن اس میں نقصان یہ ہے کہ کسی بھی شریک کی مکمل رائے سامعین کے سامنے نہیں آپاتی اور لوگوں کو مکمل گفتگو سننے کے باوجود موضوع سے متعلق تشنگی باقی رہتی ہے۔ فیمنزم اور ہم جنس پرستی سے متعلق جو ڈسکشن ہوا، اسے سن کر مسلمانوں کی عمومی صورت حال پر سخت افسوس ہوا۔ پینل میں شریک تمام ہی شرکا نے ان موضوعات پر کفری والحادی بیانیے کو ترجیح دی۔ ایک دو مواقع پر ایک برقعہ پوش خاتون نے اسلامی بیانیہ رکھنے کی کوشش کی مگر سامنے والوں نے اپنے زور بیان سے سے اس کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہونے دی۔ زیادہ تکلیف دہ صورتحال یہ تھی کہ حاضرین الحادی نکتہ نظر پیش کرنے والوں کو تالیاں بجاکر خوب داد دے رہے تھے۔

راقم کا پہلا موضوع تھا: ‘امت کی موجودہ صورتحال اور آگے کا لائحہ عمل”۔ اس ناچیز نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے بیان کردہ فارمولے کو بنیاد بناکر گفتگو کی اور حاضرین کو ترغیب دلائی کہ ہر شخص اپنے اپنے میدان علم میں آخری ڈگری حاصل کرے اور درجہ کمال تک پہنچے۔ جب تک دنیا آپ کی علمی میدان میں محتاج نہیں ہوگی، آپ برابری کی سطح پر دوسروں سے گفتگو نہیں کر سکتے۔

دوسرا موضوع تھا: نفسیاتی امراض اور اسلام. چوں کہ اس موضوع پر میرا مطالعہ نہیں تھا، اس لیے جب یہ موضوع مجھے دیا گیا تو مجھے لگا کہ اس کو بطور چیلنج قبول کرنا چاہیے اور اس موضوع پر زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے جتنی توفیق دی اس کے بقدر کچھ صفحات الٹنے کا موقع ملا اور اس موضوع پر کچھ معروضات پیش کیں۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ایک الگ مضمون میں ان معروضات کو ذکر کروں۔ امید ہے کہ بہت سے قارئین کو علم النفس کے میدان میں قرآن اور احادیث کے اعجاز کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

اس دورے کی ایک اہم ترین بات یہ تھی کہ مجھے چند ایسے نوجوانوں سے ملنے کا موقع ملا، جن کی علمی اور دینی تڑپ دیکھ کر مجھے بڑا رشک آیا۔ پندرہ بیس کی تعداد میں یہ نوجوان یونیورسٹیوں کے اعلی تعلیم یافتہ ہیں، لیکن بہت دین دار، چہرے مہرے سے کسی عالم دین سے کم نہیں۔ ساتھ ہی یہ لوگ انٹر نیٹ پر مختلف علماء سے علم بھی حاصل کررہے ہیں۔ ان کا طریقہ یہ ہے کہ ہر فن کے لیے یہ اس کے ماہر کو تلاش کرتے ہیں اور پھر اس سے فن کی تمام متداول کتابیں پڑھتے ہیں۔ مدارس میں ایک دور تک یہ طریقہ رائج رہا اور پھر استاذ حدیث کو وہ تقدیس حاصل ہوئی کہ درس حدیث دینا ہر مدرس کی معراج ٹھہری۔ کچھ اساتذہ نے تو بعض مدارس میں انتظام ہاتھ میں آجانے کے بعد محض اس لیے درس حدیث دیا تاکہ وہ یہ ثابت کرسکیں کہ وہ بھی درس حدیث دے سکتے ہیں۔ مدارس کے نظام تعلیم کے انحطاط کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ترکی کے ایک عالم ان نوجوانوں کو درس نظامی کی میری پسندیدہ ترین کتاب شرح عقائد پڑھا رہے ہیں۔ ان نوجوانوں کے ساتھ جتنا وقت بھی گزرا اس میں ان کے علمی سوال وجواب سے میں محظوظ ہوتا رہا۔ ایسے ہی نوجوان امید کی کرن ہیں اور انھی سے توقعات وابستہ ہیں ورنہ مسلم نوجوانوں کی اکثریت جس راہ پر نکل چکی ہے وہ یا تو جہالت پر منتہی ہوتی ہے یا الحاد وتشکیک پر۔

0 Shares:
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *