شہید گنج مسجد لاہور اور بابری مسجد ایودھیا

شہید گنج مسجد لاہور اور بابری مسجد ایودھیا
قسمت ایک، فیصلے الگ
یاسر ندیم الواجدی

نو نومبر 2019 کو بھارت کی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے معاملے میں اپنا تاریخی مگر غیر منصفانہ فیصلہ سنایا۔ ماہرین قانون اس فیصلے کے تضادات پر حیران ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ کیسے ایک “سیکولر” ملک میں اکثریتی جذبات کی بنیاد پر فیصلے لیے جارہے ہیں۔ اس موقع پر بھارت کے مسلمانوں نے جس امن کا مظاہرہ کیا وہ بھی تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ مسلمانوں سے انھی کی بنائی ہوئی مسجد چھین لی گئی ہو۔ اس سے پہلے لاہور کی شہید گنج مسجد بھی مسلمانوں سے چھین کر شہید کر دی گئی تھی، لیکن جب معاملہ ایک مسلم ملک کی عدالت میں پہنچا، تو انصاف کا پیمانہ یکسر مختلف تھا۔ اُس ملک کی عدالت نے اکثریتی احساسات وجذبات کی بنیاد پر فیصلہ کرنے سے انکار کر دیا۔ یہاں اس سے بحث نہیں ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ شریعت کے مطابق تھا یا خلاف، لیکن اس نے ہمت دکھائی کہ وہ اکثریت کے احساسات کے خلاف جائے اور اکثریت نے ہمت دکھائی کہ وہ عدالت کے فیصلے کو قبول کرے۔

اس مسجد کو دارشکوہ کے باورچی عبداللہ نے تعمیر کیا تھا۔ مغلیہ عہد سلطنت میں سکھوں اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی عام بات تھی۔ حکومت نے اپنے خلاف بغاوت پر آمادہ عناصر کو کچلنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سکھوں کا دعوی ہے کہ لاہور کے حاکم میرمنو (جو 1764 میں حاکم بنا) نے اس مسجد کے سامنے واقع میدان میں میں لاکھوں سکھوں کو پھانسی پر لٹکایا تھا۔ اس جگہ سے کیونکہ سکھوں کے جذبات وابستہ ہوگئے تھے، اس لیے انہوں نے مغلیہ سلطنت کے زوال کے دوران، اس پورے کمپلیکس پر قبضہ کرلیا۔ ان کا دعوی ہے کہ میرمنو نے ملتان پر حملہ کرنے میں ان کے تعاون کے عوض، سکھوں کو یہ کمپلیکس دینے کا وعدہ کیا تھا، جبکہ مسلمانوں کا دعوی ہے کہ سکھوں نے اس جگہ پر غیر قانونی قبضہ کیا ہے۔

1849 میں پنجاب کے علاقے پر انگریزوں کا غلبہ ہوا، تو مسلمانوں کو یہ لگا کہ اب وہ اپنی مسجد کو دوبارہ حاصل کر پائیں گے۔ چنانچہ 1850 میں نورمحمد نامی ایک شخص نے مسجد کے متولی ہونے کا اعلان کردیا۔ 1853 میں مسلمانوں کی جانب سے انگریز کی عدالت میں مسجد کو لے کر، پہلی مرتبہ کیس فائل ہوا اور 1883 تک یہ سلسلہ چلتا رہا، لیکن انگریز عدالت نے اس جگہ کا قبضہ جوں کا توں (status quo) باقی رکھنے کا حکم دیا۔ وقت گزرتا رہا، مسجد اپنی جگہ کھڑی رہی، لیکن سکھوں کے قبضے کی وجہ سے مسلمان وہاں نماز ادا نہیں کرسکے، یہاں تک کہ 1935 میں سکھوں نے ایک تحریک کے نتیجے میں یہ اعلان کیا کہ وہ اس مسجد کو شہید کریں گے۔ مسلمانوں کی طرف سے فوری طور پر “انجمن تحفظ مسجد شہید گنج” بنی اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا، مگر حکومتی سرپرستی کی وجہ سے سے سات جولائی 1935 کو مسجد شہید کر دی گئی، جس کے نتیجے میں لاہور میں فسادات ہوئے اور پولیس فائرنگ میں ایک درجن سے زائد مسلمان شہید ہوگئے۔ اسی سال بامبے ہائیکورٹ میں “مسجد شہید گنج بنام شرومنی گردوارا پربھندک” کیس فائل ہوا، جس پر دو مئی انیس سو چالیس میں عدالت نے یہ کہہ کر فیصلہ دیا کہ یہ بات ثابت ہے کہ اس جگہ مسجد تھی اور مسلمان ایک سو ستر سال پہلے تک اس مسجد میں نماز پڑھا کرتے تھے، لیکن کیونکہ یہ جگہ ایک سو ستر سال سے سے سکھوں کے قبضے میں ہے، لہذا قبضے پر طویل مدت گزرنے کی وجہ سے یہ جگہ سکھوں کو دی جاتی ہے۔ قانون کی زبان میں اس کو اسٹیچیو آف لیمیٹیشن کہا جاتا ہے۔ بامبے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد سکھوں نے اس کمپلیکس میں بچے کچے اسلامی آثار کو بھی منہدم کردیا اور ایک چھوٹاسا گردوارہ تعمیر کرلیا۔

1947 میں ملک تقسیم ہوا اور لاہور پاکستان میں شامل ہوگیا، اس کمپلیکس کا ایک حصہ سکھوں کے ہجرت کرجانے کی وجہ سے محکمہ اوقاف کے تحت آگیا، لیکن گردوارہ اپنی جگہ باقی تھا۔ مسلمانوں کو ایک بار پھر امید ہوئی کہ مسلم ملک اور مسلم عدالت ہونے کی وجہ سے سے، اس مرتبہ وہ مسجد کی بازیابی میں کامیاب ہوجائیں گے۔ 1950 میں لاہور ہائی کورٹ میں اس تعلق سے ایک پٹیشن فائل کی گئی، لیکن عدالت نے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے پٹیشن خارج کردی۔ ایک بار پھر مسلم فریق کو عدالت سے انصاف نہیں مل سکا، لیکن اس مرتبہ منصف ایک مسلم ملک کے مسلمان جج تھے۔

1990 میں پاکستان کی سکھ اقلیت کی طرف سے حکومت سے درخواست کی گئی کہ وہ پورے کمپلیکس کو اپنی تحویل میں لے کر اس کی تعمیر نو کرنا چاہتی ہے۔ معاملہ ایک مرتبہ پھر گرماگیا، لیکن اس مرتبہ مسلم لوہاروں کی مقامی آبادی اور قریب میں واقع لاہور کے مشہور لنڈا بازار کے تاجروں نے سکھ اقلیت کا ساتھ دیا، تاآنکہ 2004 میں سکھوں نے حکومت کی اجازت سے پورے کمپلیکس کی تعمیر نو کی اور آج وہاں ایک گردوارہ اپنے پورے احاطہ کے ساتھ موجود ہے۔

بابری مسجد کو بھی ایک منظم ہجوم نے تحریک چلاکر شہید کیا، مسجد شہید گنج کو بھی ایک منظم ہجوم نے مسمار کیا۔ عدالت نے دونوں کے بارے میں یہ تسلیم کیا کہ وہ مسجدیں تھیں اور ان کو مسمار کرنا قانونی طور پر غلط تھا۔ دونوں کے بارے میں یہ تسلیم کیا کہ وہاں ایک عرصے تک نماز ہوتی رہی تھی۔ ایک کے بارے میں یہ تسلیم کیا کہ وہاں مندر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے، دوسری کے بارے میں سکھوں نے کبھی یہ دعوا کیا ہی نہیں تھا کہ وہاں کبھی گردوارہ تھا جس کو مسمار کرکے مسجد بنائی گئی تھی۔ لیکن جب ایک سیکیولر ملک کی عدالت عظمیٰ نے فیصلہ سنایا تو اکثریت کے احساسات وجذبات کو سامنے رکھ کر مسجد کی جگہ مندر بنانے کی اجازت دیدی گئی اور جب ایک اسلامی جمہوریہ کی ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا تو اکثریت کے احساسات کو مسترد کردیا اور مسجد کو گردوارہ ہی رہنے دیا گیا اور پھر اسی اسلامی جمہوریہ کی حکومت نے، باقاعدہ اپنی نگرانی میں اقلیت کی خواہش کے مطابق تعمیر نو کی اجازت بھی دی۔ اگر شریعت کے بجائے ملکی قانون ہی انصاف کا اعلی ترین پیمانہ ہو، تو لوگ خود فیصلہ کریں کہ اس پیمانے پر کھرا کون اترا۔

0 Shares:
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *