مدرسہ ڈسکورسز پر ہمارے خدشات کی وجہ
یاسر ندیم الواجدی
مدرسہ ڈسکورسز کے تعلق سے میرے گزشتہ مضمون میں اگرچہ وہ ساری باتیں آگئیں تھی، جن سے اس پروگرام کے تعلق سے ہمارے خدشات کو تقویت ملتی ہے، لیکن بعض حلقوں کی جانب سے مناسب سوالات بھی قائم کیے گئے۔ مثلا یہ کہ اگر کچھ فارغین مدارس جدید علوم پڑھ لیں گے تو اس میں کیا حرج ہے؟ ہمیں دوسری فکر کے ساتھ مکالمہ کرتے رہنا چاہیے! یا پھر مدارس کے طلبہ اتنے کمزور ہیں کہ مخالف فکر کے سامنے بہہ پڑیں گے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ایسے تمام مخلصین کو یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمارے اختلاف کی وجہ ہرگز جدید علوم یا قدیم فلسفہ نہیں ہے، بلکہ چند علمائے ہند وپاک کی شمولیت سے اس پروگرام کو جو اعتبار حاصل ہورہا ہے وہ اختلاف کا محرک ہے جب کہ یہ پروگرام اس اعتبار کے لائق نہیں ہے جیساکہ سمجھا جارہا ہے۔ اس کی تفصیلات اتنی ہیں کہ اس مختصر مضمون میں ان کا احاطہ مشکل ہے، لیکن چند امور بلا تبصرہ وتجزیہ لکھے جاتے ہیں، آپ ان امور کی بنیاد پر خود تجزیہ کرنے کے لیے آزاد ہیں۔
ہمارے یہ خدشات مندرجہ ذیل امور کی وجہ سے قائم ہیں:
پروگرام کی فنڈنگ:
1- کیتھولک یونیورسٹی کے اس پروگرام کی فنڈنگ تین ادارے کررہے ہیں۔ دی ہینری لوس فاؤنڈیشن، دی ریلیجن اینڈ انوویشن ان ہیومن افیرز، دی جان ٹیملیٹن فاؤنڈیشن۔ ان تینوں میں سے تیسرے ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق اس کی جانب سے اکیس لاکھ ڈالر سے زائد کی رقم مدرسہ پروجیکٹ کے لیے مختص کی گئی ہے۔ اس ادارے کے سابق صدر جو کہ موجودہ صدر کے والد ہیں جان ٹیملیٹن جونیر تھے۔ وہ ایک اوینجلیکل عیسائی تھے اور انھوں نے سابق امریکی صدر جارج بش کی دونوں الیکشن مہم کو خطیر رقم دی تھی۔ ایج نامی ویب سائٹ پر تفصیل موجود ہے۔ وکیپیڈیا نے ان کا تعارف کچھ یوں کرایا ہے کہ: “وہ “امریکن کنزرویٹو کاز” کے بڑے معاون تھے”۔ امریکی کنزرویٹو کاز ایک سیاسی اصطلاح ہے جس کے معنی وکیپیڈیا کے مطابق یہ ہیں کہ: “یہود وعیسائی اقدار کو سیاست، قانون اور اخلاقیات کی بنیاد قرار دینا”.
ایج ویب سائٹ پر جان ہورگن جو کہ خود اس ادارے سے رقم حاصل کرچکے ہیں لکھتے ہیں کہ: “بہت سے اسکالرز نے مجھے بتایا کہ ہم اس ڈر سے “مذہبی امور” کو چیلنج نہیں کرسکتے کہ کہیں ادارے کی طرف سے فنڈنگ بند نہ ہوجائے۔
فقہ اسلامی میں تبدیلی:
2- مدرسہ ڈسکورسز پاکستان نامی رسالے میں پچھلے سال نیپال میں منعقد ہونے والے پروگرام کی روداد لکھتے ہوے سید مطیع الرحمان لکھتے ہیں کہ سعدیہ یعقوب (فیمنسٹ) نے جنس اور قانون پر لیکچر دیا۔ فیمنزم کی طرف سے اسلام کے خلاف ہونے والے اعتراضات اور امینہ ودود (پہلی خاتون امام) اور حنا اعظم کی طرف سے جوابات کا تجزیہ پیش کیا۔ عصمت دری کے فقہی قانون کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ جس دور میں فقہا نے فقہ اسلامی تشکیل دی اس وقت ان کے یہاں پہلے سے موجود “مفروضات” تھے جو بنیادی کردار ادا کررہے تھے۔ آج فقہ اور دور جدید میں جو عدم مطابقت دکھائی دیتی ہے، اس کے لیے ہمیں ڈاکٹر فضل الرحمان کی تھیوری پر عمل کرتے ہوے آج کے حالات کے تناظر میں فقہ کو مرتب کرنا ہوگا۔ (تفصیلی اقتباس اسکرین شاٹ میں ملاحظہ کیجیے).
3- ڈاکٹر ابراہیم موسی نے شعرانی کی ارشاد الطالبین پر گفتگو کرتے ہوے کہا کہ شعرانی کے نزدیک احکام تعلق الواح المحو والاثبات سے ہے۔ ان الواح پر لکھا ہوا تبدیل ہوتا رہتا ہے، لہذا احکام (مطلقاً) قابل تغیر ہیں۔
مذہبی پلورلزم:
4- پروفیسر اطالیہ عمیر کہتی ہیں کہ: “مذہبی کشمکش کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم صرف اپنے مذہب کا مطالعہ کرتے ہیں، جبکہ اس موضوع پر ہم نہ کسی دوسرے مذہب کا موقف سننے کے لیے تیار ہیں اور نہ اس پر آزادی سے غوروفکر کے عادی ہیں”۔ اس اقتباس کو اور ہمارے گزشتہ مضمون میں ذکر کردہ مذہبی پلورلزم کو ذہن میں رکھیں۔
خدا کی مرضی کیسی!
5- روداد نویس نے اپنا واقعہ لکھا ہے کہ: جب انہوں نے اپنے پروفیسر سے سے یہ کہا کہ وہ ان شاء اللہ چہل قدمی کریں گے تو ایک طالبہ نے قہقہہ لگایا۔ اس کا قہقہہ سن کر میں یہ سوچ رہا تھا کہ جو کام آپ کر سکتے ہیں، اس کام میں اللہ کی مرضی کا کیا مطلب؟۔
نظریہ ارتقاء:
6- پروفیسر ماہان مرزا کے گروپ کے شہزاد حسین نے نظریہ ارتقاء پر علمائے دیوبند کا موقف بتایا اور اس پر سخت تنقید کی۔ روایتی علماء نے سائنس کے بارے میں چند مفروضات سنی سنائی باتوں پر قائم کرلیے ہیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے ارتقاء کے بارے میں مثبت رائے دی تھی۔ ان کے مطابق مسلم فلاسفرز اور صوفیاء کے یہاں ارتقاء کا تصور کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتا ہے۔
عقل ونقل کا اختلاف:
7- محمد تہامی نے عقل ونقل کے اختلاف کے وقت علماء کے منہج کا جائزہ لیا، جن میں غلام احمد پرویز، سر سید، مولانا تھانوی، مولانا انور شاہ کشمیری اور ڈاکٹر فضل الرحمان کے منہج کا ذکر کیا گیا۔ آخر میں فضل الرحمان کے نظریہ کو یہ کہہ کر ترجیح دی گئی کہ ان کے یہاں جدید دور کا گہرا ادراک پایا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس موضوع پر مسلسل غوروفکر کی بھی دعوت دی گئی۔ فضل الرحمن کے نظریے کی طرف اوپر اشارہ کیا جاچکا ہے۔
8- ماہان مرزا کے مطابق: “آج ہماری “روایت” بحران سے گزر رہی ہے جس سے نکلنے کے لیے ہمیں کلی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق فقہاء نے ارسطو کے نظریات کے مطابق معاشرت کے جو احکام مرتب کئے تھے، ہم اب ان کو جواز فراہم نہیں کر سکتے۔ اب ورلڈ ویو تبدیل ہوچکا ہے۔ ان کے متعلق کا خلاصہ تھا کہ کسی بھی قوم کی تھیولوجی (دینیات) اس دور کی کوسمولوجی (سائنسی نظریہ آغاز کائنات) کے مطابق ہونی چاہیے۔
9- عادل عفان نے ارتداد کی سزا پر از سرنو غوروفکر کی ضرورت پر اپنے نتائج پیش کیے۔
10- حنفی حنفی کرنے والے پاکستان کے ان علماء پر بھی تنقید کی گئی، جنہوں نے قانون توہین رسالت میں امام ابوحنیفہ کے موقف کو چھوڑ کر ابن تیمیہ کا موقف اختیار کیا ہے۔
یہ معروضات چند اسکرین شاٹس کے ساتھ پیش کی جارہی ہیں۔ اس کے بعد قارئین خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ ہماری علمی قیادت کی طرف سے اس طرح کے پروگرامز کی توثیق وتائید ہونی چاہیے یا نہیں۔ ہم مضبوطی سے اس نظریے کے پابند ہیں کہ فروعات پر خوب گفتگو ہونی چاہیے، لیکن مسلمہ اصولوں میں لچک نہیں آنی چاہیے۔ اگر اس نظریے کو سامنے رکھتے ہوے مدرسے کا کوئی فاضل انفرادی سطح پر دنیا کے کسی بھی ادارے میں پڑھنے جانا چاہے تو وہ یقینا جائے اور برابری کی سطح پر مکالمے کے فرائض انجام دے، وہ عند اللہ ماجور ہوگا۔