ہماری ذوچہرگی؟

ہماری ذوچہرگی؟
یاسر ندیم الواجدی

ہمارے دوست محمد علم اللہ اگرچہ دل کے سچے ہیں، لیکن بعض مرتبہ اضافی جذباتیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ اپنے خلوص میں ہی یہ سب کرتے ہوں گے۔ لہذا ان کی باتوں کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں۔

الحمد للہ ہم دین کے معاملے میں صرف ایک تفہیم قبول کرنے کے لیے تیارہیں۔ وہ تفہیم جو سلف کے نزدیک متفق رہی ہے۔ اس کے علاوہ ہر تفہیم غلط ہے اور ہم اس کا برملا اعلان کرنے کے قائل ہیں۔ سلف (ابتدائی تین نسلیں) کے یہاں جو امور متفق علیہ نہیں تھے ان کے قائلین کو ہم اہل سنت کا حصہ مانتے ہیں، یہی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا منہج ہے۔

پلورلزم پر برادرم علم اللہ کی گفتگو اس بات کی دلیل ہے وہ مغربی فلسفہ اور اس کی اصطلاحات سے واقف نہیں ہیں۔ ہندوستان میں جس پلورلزم کی دہائی جمعیت علمائے ہند اور دیگر علماء دیتے ہیں وہ سیاسی پلورلزم ہے، جس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ہمیں جس پلورلزم پر اعتراض ہے اس کا حقیقی نام پرینیلزم ہے جس کے معنی ہیں کہ حق اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں بھی ہوسکتا ہے، اس کی صدا آپ مغربی فکر میں ہی سنیں گے جو کہ الحاد کا دوسرا نام ہے۔ یہ متفقہ طور پر کفر ہے۔ کچھ لوگ امام غزالی کے ایک قول کو اس کی تائید میں پیش کرتے ہیں لیکن علماء اس کا جواب دے چکے ہیں۔ حق صرف اسلام میں منحصر ہے۔

ہم مغرب میں رہتے ہیں یا حجاز مقدس میں، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اگر ہم مکہ میں رہ کر مغربی افکار کے قائل ہوں تو ہم مغربی ہیں۔ اور اگر وہائٹ ہاؤس میں رہ کر ان افکار کے ناقد ہوں تو مشرقی ہیں۔ جس مغربی فکر پر ہم تنقید کرتے ہیں اس پر بے شمار عیسائی مفکرین بھی تنقید کرتے ہیں۔

لہذا ہندوستان میں مدرسہ قائم کرنا اور امریکہ میں مدرسہ قائم کرنا جغرافیائی اعتبار سے تو الگ ہوسکتا ہے، لیکن اگر ایک ٹرمپ کا ملک ہے تو دوسرا مودی کا ہے۔ اس لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ رہتے کہاں ہیں، فرق اس سے پڑتا ہے کہ آپ کہتے کیا ہیں۔ اگر مودی کا ملک کانٹ اور جان لاک کی فکر کی پیروی کرنے لگے تو مشرق میں ہوتے ہوے بھی وہ مغربی ملک ہوگا۔ اگر ٹرمپ کا ملک غزالی کے فلسفے پر استوار ہوجائے تو مغرب میں ہوتے ہوے بھی مشرقی ہوگا۔

یہ بات نہایت سطحی ہے کہ ہم ایک فکر کے خلاف تنقید کریں اور کچھ لوگ ہماری ذات کو نشانہ بنائیں۔ اس سے کچھ ثابت ہو یا نہ ہو مگر فکری قلاشی ضرور ثابت ہوتی ہے۔ برادرم علم اللہ کی طرح ایک اور صاحب نے جو دارالعلوم سے فاضل ہیں اور مدرسہ ڈسکورسز میں شامل ہیں ذاتیات کو نشانہ بناتے ہوے ایک تحریر لکھی۔ ان کا نام دیکھ کر مجھے بیس سال پرانا ایک واقعہ یاد آیا۔ ایک مرتبہ دیوبند کے آریہ سماج مندر میں ایک پنڈت کا پروگرام ہوا جس میں دارالعلوم کے طلباء کو بلایا گیا تھا۔ میں اور ڈاکٹر عاطف صاحب اور برادرم حفظ الرحمن اسامہ بھی پہنچے۔ دیوبند نے وندے ماترم کے خلاف اس وقت ہہلا فتوی دیا تھا۔ پنڈت نے اس ترانے کے فضائل بیان کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی یہ ترانہ توحید ہے۔ اس نے طلبا سے تقریر کے بعد تصدیق چاہی تو ان صاحب نے کھڑے ہوکر فوری تصدیق کی اور دیوبند کے فتوے کو دارالعلوم میں پڑھنے کے باوجود ہندوؤں کے سامنے غلط ٹھہرایا۔ اگر فارغین کا یہ مزاج ہو کہ وہ ہر رطب و یابس کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوں تو ایسے لوگوں کے لیے جدت پسندی کے یہ پروگرام سخت نقصان دہ ہیں۔

ایک صاحب جن کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ ابراہیم موسی کے پاس بیٹھے ہیں یہ لکھا کہ ہم نے کورس میں داخلہ کے لیے ابراہیم موسی سے رابطہ کیا تھا، نام نہ آنے پر یہ مضمون لکھ دیا۔ ہم سمجھتے تھے کہ ابراہیم موسی کی شخصیت اس سے بلند ہوگی، لیکن افسوس ہوا اس افتراء کو سن کر۔ ابھی تک کسی نے بھی دلائل کی بنیاد پر ہمیں جواب دینے کی زحمت نہیں کی ہے۔ اگر ابراہیم موسی اپنے اس افتراء کو ثابت کردیں تو ہم علی الاعلان معافی مانگنے کے لیے تیار ہیں۔

میں واضح انداز میں کہتا ہوں مغربی جدت پسندی کا مطلب الوہیت انسان ہے۔ جس طرح ایمان باللہ اور شرک میں اتفاق نہیں ہوسکتا، اسی طرح اسلام اور مغربی تہذیب کے درمیان بھی اتفاق نہیں ہوسکتا۔ ہر وہ تحریک جو مغربی تہذیب کو آئڈیل بناکر اسلامی تعلیمات اور شریعت میں تبدیلی کی آواز اٹھائے گی ہم ان شاءاللہ اپنی تمام تر کوتاہیوں کے اعتراف کے باوجود اس کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کرتے رہیں گے۔

0 Shares:
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *