ارباب کلیسا سے کچھ صاف صاف باتیں


ارباب کلیسا سے کچھ صاف صاف باتیں
یاسر ندیم الواجدی

اس ہفتے جب میں جمعہ پڑھانے کے لیے مسجد پہنچا، تو دیکھا کہ متعدد مقامی چرچ کے نمائندے بھی موجود ہیں جو نیوزی لینڈ کے حملے کی وجہ سے اظہار یک جہتی کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ ذہن میں بات آئی کہ ان کی مناسبت سے کچھ گفتگو ہوجائے۔ حضرت حکیم الاسلام قاری طیب صاحب رحمہ اللہ کے ایک جملے نے موضوع بھی متعین کردیا اور مواد بھی فراہم کردیا۔

حضرت نے ایک تقریر میں فرمایا تھا کہ “اسلام کی بنیاد تصدیق پر ہے جب کہ دیگر آسمانی مذاہب کی بنیاد تردید پر”۔ اس جملے کی تشریح یہ ہے کہ یہود اگر حضرت عیسی اور حضرت محمد علیہما السلام کو مان لیں تو یہود نہ رہیں، ان کی یہودیت ان دونوں رسولوں کے انکار سے ہی محفوظ ہے۔ اسی طرح عیسائی اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیں تو عیسائی نہ رہیں، ان کی عیسائیت دیگر عقائد کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار سے محفوظ ہے، جب کہ مسلمان ان دونوں انبیاء کے ساتھ ساتھ کسی بھی نبی یا رسول کا انکار کردیں تو مسلمان نہیں رہ سکتے۔

اس سے یہ ثابت ہوا کہ مسلمانوں کو دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ رہنے میں اصولی طور پر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اسلام کو بدنام کرنے کے لیے میڈیا نے مسلمانوں کی تصویر کشی ایسی کی ہے گویا وہ کسی دوسری کمیونٹی کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔

موقع کی مناسبت سے میں نے یہ بھی عرض کیا کہ لوگ مذہب کو الزام دیتے تھے کہ دنیا میں فساد کی جڑ یہی ہے۔ نیوزی لینڈ حملے سے ثابت ہوگیا کہ مذہب مسئلہ نہیں ہے، بلکہ نسل پرستی مسئلہ ہے۔ یہی نسل پرستی امریکہ میں کروڑوں ریڈ انڈینز اور کروڑوں سیاہ فاموں کے قتل کی ذمے دار ہے، یہی نسل پرستی دنیا بھر میں رائج رہی سامراجیت اور اس کے نتیجے میں ہونے والی کروڑوں ہلاکتوں کی ذمے دار ہے۔ آج کچھ لوگ میڈیا میں یہ کہہ رہے ہیں کہ وہائٹ نسل پرستی “جہاد” سے بڑا خطرہ ہے، جب کہ صرف وہائٹ اور یہودی نسل پرستی ہی خطرہ ہے۔ جہاد کو اگر صحیح طریقے سے سمجھ لیا جائے تو کوئی خطرہ نہیں ہے، کیوں کہ قرآن کی پہلی آیت میں جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاد کی اجازت ملی، جہاد کی حکمت کے طور پر یہ بھی مذکور ہے کہ “اگر کچھ انسان دوسروں پر غالب نہ آئیں تو خانقاہیں، کلیسا، عبادت خانے اور مساجد جہاں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے مسمار کردی جائیں”. اس آیت میں صرف مساجد کا ذکر نہیں ہے بلکہ دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کا بھی ذکر ہے۔

نماز کے بعد ان لوگوں سے ملاقات ہوئی، میں نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کے لیے مسجد میں آئے، انھوں نے بھی جوابا شکریہ ادا کیا۔ درحقیقت نیوزیلینڈ حملے نے مغربی دنیا کو دفاعی پوزیشن میں کھڑا کردیا ہے اور پوری دنیا کو مجبور کردیا ہے کہ وہ دہشت گردی کو ایک الگ زاویے سے دیکھے۔ رائے عامہ کی اس تبدیلی میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسنڈا آرڈرن کا بھی بنیادی کردار ہے جس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔

0 Shares:
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *