“والدین نے میری پیدائش کے لیے مجھ سے اجازت نہیں لی”

“والدین نے میری پیدائش کے لیے مجھ سے اجازت نہیں لی”
پوسٹ ماڈرنزم کا تصور فرد
یاسر ندیم الواجدی

ممبئی سے ایک خبر آ رہی ہے کہ سموئیل نام کا ایک 26 سالہ شخص اپنے والدین کے خلاف مقدمہ کرنے کی تیاری کررہا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس کے والدین نے اس کی اجازت کے بغیر اس کو دنیا میں لانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے مطابق والدین دراصل اپنی خواہش کی تسکین کے لیے بچے پیدا کرتے ہیں اور دنیا میں غلاموں کی تعداد میں اضافہ کرنے کا سبب بنتے ہیں، کیوں کہ پیدا ہونے کے بعد پچے کو اپنا مستقبل اچھا بنانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ بچے اپنے والدین کی عزت کیوں کریں، جبکہ بچے والدین کی ضرورت ہیں نہ کہ اس کا برعکس۔ سموئیل نام کا یہ شخص تنہا نہیں ہے بلکہ اس وقت دنیا میں anti-natalism کے نام سے باقاعدہ تحریک چل رہی ہے، جس کا مقصد لوگوں کو یہ بتلانا ہے کہ بچے پیدا کرنا ایک معاشرتی ضرورت نہیں ہے، بلکہ یہ محض ذاتی ضرورت پورا کرنے کا سامان ہے۔

ماضی میں ماڈرنزم کے ردعمل کے طور پر ایک نیا نظریہ وجود میں آیا، جس کو دنیا پوسٹ ماڈرنزم کے نام سے جانتی ہے۔ رد عمل کا مطلب بظاہر تو یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک نظریے نے کسی فلسفے کو رواج دیا، تو دوسرا نظریہ اس فلسفہ کو مسترد کردے، لیکن پوسٹ ماڈرنزم نے ماڈرنزم کے تمام اصول و ضوابط کو اختیار کرتے ہوئے ان میں چند اضافے کیے اور اس عمل کو ردعمل کا نام دے دیا گیا۔ ماڈرن ازم میں فرد کو مکمل آزاد ، مستغنی اور اپنی زندگی کا خود فیصلہ کرنے والا تصور کیا گیا ہے۔ پوسٹ ماڈرنزم نے فرد کے اس مزعومہ “حق” کو برقرار رکھا، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ فرد کو مکمل آزادی اسی وقت مل سکتی ہے جب دنیا میں رائج (میگا نیریٹیوز) mega narrative کو ختم کر دیا جائے۔ میگا نیریٹوز کا مطلب ہے عمومی بیانیے، یعنی کوئی بھی ایسا معاشرتی تصور کہ جس سے فرد دباؤ محسوس کرے غلط ہے۔ مثلا معاشرے کا یہ تصور کہ دو انسانوں کے آپس میں ملنے کا جائز طریقہ صرف نکاح ہے ایک عمومی بیانیہ ہے، جس کو پوسٹ ماڈرنزم میں مسترد کردیا جاتا ہے، کیونکہ یہ معاشرتی تصور کچھ لوگوں کی آزادی میں مخل ہے۔ بچے کو اس کی جنس یعنی اس کے مذکر یا مونث ہونے کے اعتبار سے پکارنا، یا اس کو یہ باور کرانا کہ وہ لڑکا ہے یا لڑکی ایک عمومی بیانیہ ہے۔ مغربی ممالک میں ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو اپنے بچوں کی gender free پرورش کر رہی ہے یعنی بچوں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ وہ مذکر ہیں یا مونث۔ بچے بڑے ہوکر خود اپنی جنس اپنی خواہش کے مطابق منتخب کریں گے۔ اسی طریقے سے والدین کے لیے اولاد پیدا کرنے کا حق ایک عمومی بیانیہ ہے، جس کو اولاد مسترد کر سکتی ہے۔

مذکورہ بالا کیس میں اگر عدالت بھی پوسٹ ماڈرنزم سے متاثر ہوئی اور سموئیل کا مقدمہ قبول کرلیا گیا، تو عدالت کو سموئیل سے یہ ضرور پوچھنا چاہیے کہ وہ اپنے بچے پیدا کرنے سے پہلے ان سے اجازت کیسے لے گا، نیز اگر بچے دنیا میں آنا چاہتے ہوں اور والدین نہ چاہتے ہوں تو کیا بچوں سے جو کہ ابھی باپ کی صلب میں کہیں ہوں گے میٹنگ کرکے کوئی معاملہ طے پا سکتا ہے؟

ایک حدیث کے مطابق قرب قیامت میں انسان خونخوار جانوروں سے بدتر ہو جائے گا نہ وہ کسی اچھی بات کو اچھا سمجھے گا اور نہی بری بات کو برا۔ (رواہ مسلم) دنیا اس عہد میں داخل ہوچکی ہے اور انسانیت کی معاشرتی اقدار کو حیوانیت کے ذریعے چیلنج کیا جارہا ہے، بلکہ اس الٹی گنگا کو دنیا ترقی کا عنوان دے کر قبول کررہی ہے۔

0 Shares:
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *