بانجھ عورت یا بانجھ عقل
یاسر ندیم الواجدی
کچھ نیم لبرل حضرات کہتے ہیں کہ وہ احادیث جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں سے نکاح کرنے کو منع فرمایا ہے، جو بچہ نہ جن سکتی ہوں مسترد کردیے جانے کے لائق ہیں۔ مثلا معقل بن یسار کی یہ روایت وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے دریافت کیا کہ میں ایک اچھے حسب والی خوبصورت عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہوں، البتہ وہ بچہ نہیں جن سکتی تو کیا میں اس سے نکاح کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرما دیا۔ لبرل/نیم لبرل حضرات اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اگر یہ حدیث درست ہے، تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج سب سے پہلے اس کی زد میں آئیں گی۔ یہ سوال ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کیوں ان سے نکاح فرمایا؟
ان لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ حضرات کسی حدیث کو اس نیت سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کو کیسے مسترد کیا جائے۔ نمبر6 کو اگر آپ نمبر 9 پڑھنا چاہیں تو یا تو اس کاغذ کو گھمانا ہوگا یہ خود گھوم جانا ہوگا۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نکاحوں کا معاملہ عام لوگوں کے نکاح جیسا نہیں ہے۔ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہی اپنی ذاتی ضرورت کی وجہ سے نکاح فرمایا تھا اور ان سے آپ کے یہاں اولاد بھی ہوئی۔ بقیہ ازواج سے نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہبی یا ملی ضرورت کی وجہ سے فرمایا تھا۔
دوسری بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معقل بن یسار کو نکاح کرنے سے اس لیے روکا، کیوں کہ معقل کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ عورت بچہ جننا نہیں چاہتی۔ کیونکہ شادی سے پہلے یہ کیسے پتہ چلے گا کہ کوئی عورت بچہ جن سکتی ہے یا نہیں۔ وہ عورت چوں کہ بچہ نہیں جننا چاہتی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معقل بن یسار کو منع فرمایا کہ اس سے نکاح نہ کریں۔
ایک صحیح العقیدہ انسان کا مقصد کیونکہ حدیث کو سمجھنا ہوتا ہے، اس لیے وہ حدیث با آسانی اس کے سمجھ میں بھی آ جاتی ہے، لیکن جس کا مقصد حدیث کو مسترد کرنا ہو تو پھر اس کو واضح ترین روایات میں بھی کیڑے نظر آتے ہیں۔