شیخ الاسلام کون ہوسکتا ہے؟
یاسر ندیم الواجدی
کچھ لوگ اپنی عادت سے مجبور ہوکر کسی بھی مثبت چیز کو منفی بنانے میں مہارت تامہ رکھتے ہیں اور “متفسبکین” کی فوج چہار جانب سے “جہاد” شروع کردیتی ہے۔ میں عام طور سے ایسے موضوعات پر کمنٹ بازی سے اجتناب کرتا ہوں، لیکن بعض مواقع پر یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ بروقت اس موضوع پر حقائق کی روشنی میں مختصرا گفتگو ہوجائے تاکہ کسی کی منفی ذہنیت سے عام لوگ متاثر نہ ہوں۔ لہذا اس پوسٹ کو اسی نظر سے دیکھنا چاہیے، اس کا مقصد کسی کی ٹرولنگ ہرگز نہیں ہے۔
“شیخ الاسلام” کو خلافت عثمانیہ کے سلطان محمد فاتح کے دور میں سب سے پہلے بطور لقب اختیار کیا گیا، چنانچہ 1451 عیسوی میں عہد خلافت کے پہلے مفتی اعظم کو جن کا صدر دفتر استنبول میں تھا یہ لقب دیا گیا۔ آہستہ آہستہ یہ لقب اہمیت اختیار کرتا چلا گیا، یہاں تک کہ سلیمان القانونونی کے عہد میں شیخ الاسلام کی حیثیت ایک سینیر وزیر کی ہوگئی جس کے تحت ملک کے تمام مذہبی امور آگئے۔ خلافت عثمانیہ کے آخری شیخ الاسلام شیخ مصطفی صبری تھے جن کے سکریٹری عالم اسلام کے مشہور عالم دین شیخ زاہد الکوثری ہوئے ہیں۔
لیکن یہ لقب عہد عثمانی سے پہلے ہی غیر رسمی طور پر علماء کو دیا جاتا رہا ہے۔ خلافت عثمانیہ سے پہلے شیخ الاسلام کوئی عہدہ نہیں تھا، بلکہ علماء اپنے عہد کی کسی بڑی اور متبحر علمی شخصیت کو اس کے اعزاز میں شیخ الاسلام کا لقب دیدیا کرتے تھے۔ طبری کی روایت کے مطابق سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرات شیخین کو اس لقب سے یاد کیا۔ انھوں نے فرمایا: “إماما الهدى وشيخا الاسلام”. امام ذهبی نے سیر اعلام النبلاء میں حضرت ابن عمر کو اسی لقب سے یاد کیا ہے۔ دوسری صدی کے آخر میں ابن سریج (متوفی 306 ھ) کو ان کے عہد کے علماء نے یہ لقب دیا۔ اس کے بعد ابو بکر اسماعیلی (متوفی 371 ھ) اور ان کے علاوہ امام دارقطنی (متوفی 385 ھ) کو بھی علماء کے درمیان اسی لقب سے یاد کیا گیا۔ یہ لقب اسلامی تاریخ میں بہت سے علماء کو ملا، یہاں تک کہ اس موضوع پر “البدر التمام فيمن سمي بشيخ الاسلام” کے عنوان سے کتاب بھی لکھی گئی، جس میں ان شخصیات کے حالات کو قلم بند کردیا گیا، جنھیں علمائے وقت نے اس لقب سے یاد کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ چند علماء ہی اس لقب کے ساتھ آج تک مشہور ہیں، جن میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی سرفہرست ہیں۔ امام سیوطی تو اپنی کتابوں میں جب بھی مطلقاً شیخ الاسلام بولتے ہیں تو اس سے مراد حافظ ابن حجر عسقلانی ہی ہوتے ہیں۔
اس پوری تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ شیخ الاسلام کو بطور عہدہ چار پانچ صدیوں پہلے ہی خلافت عثمانیہ میں متعارف کرایا گیا تھا، جب کہ یہ لقب گیارہ بارہ صدیوں سے علمی رسوخ رکھنے والے متبحر علماء دین کے لیے استعمال ہوتا آرہا ہے۔
اس دور میں برصغیر کے علماء کی ایک بڑی تعداد نے حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کو ان کے علمی مقام، ان کے اعتدال فکر ونظر اور فقہ وحدیث میں ان کے تبحر کو دیکھتے ہوے شیخ الاسلام کا لقب دیا ہے۔ ہوسکتاہے کہ کچھ لوگوں کو مسلکی بنیاد پر اس سے اختلاف ہو تو یہ ان کی مجبوری ہوسکتی ہے، لیکن یہ کہنا کہ یہ لقب سرکاری ہے، دراصل علمی سرمائے سے ناواقفیت کی انتہا ہے۔ ایسے لوگوں کو کم از کم علمی موضوعات پر گفتگو کرنے سے پہلے کسی سے پوچھ لینا چاہیے اور فتنہ وفساد سے اجتناب کرنا چاہیے۔ نیز یہ موضوع اختلافی بھی نہیں ہے، کیوں کہ اس لقب کا تعلق علمی بنیاد پر قائم ہونے والی عقیدت واحترام سے ہے، لہذا اس سے اختلاف کرنا گویا یہ کہنا ہے کہ فلاں سے علمی عقیدت نہیں ہونی چاہیے۔ مجھے کس سے عقیدت ہے اور کس سے نہیں، اس کا فیصلہ دوسرے لوگ دلائل سے نہیں کرسکتے، بلکہ یہ محبت کی وادیاں ہیں اور محبت کسی منطق و فلسفے کی محتاج نہیں ہوتی۔